2025: پاکستان کی سکیورٹی صورتحال میں تیزی سے تبدیلی

گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والا دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔

پاکستان کی فرنٹیئر کور نے 15 مارچ 2025 کو صوبہ بلوچستان میں پہرو کنری کے مقام پر دور دراز پہاڑی علاقے میں جعفر ایکسپریس پر مسلح عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد اس مقام کا معائنہ کیا (اے ایف پی)

2025 کے پہلے دو مہینوں میں پاکستان کے سکیورٹی منظرنامے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، جس کے نتیجے میں ایک غیر مستحکم سکیورٹی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔

گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ممالک میں دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ افغان طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد پاکستان کے جہادی منظرنامے میں جو اتحاد اور تعاون کا ماحول تھا اس میں اب گروپوں کے درمیان دراڑیں واضح طور پر سامنے آ رہی ہیں۔

اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن پاکستانی جہادی گروپوں کے درمیان اثر و رسوخ، طاقت، وسائل اور نئے جنگجو بھرتی کرنے کی لڑائی آئندہ کئی سال تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

دوسری طرف، بلوچستان کے مسلح علیحدگی پسند بلوچ راجی آجوئی سنگر ایک ہی تنظیم میں ضم ہونے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ اپنی علیحدگی پسند تحریک کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔ تین مارچ کو انہوں نے تین روزہ اجلاس کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی فوجی حکمت عملیوں میں شہری جنگ میں تبدیلی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کی لڑائی

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ چھوٹے جنگجو گروپوں کی وفاداریاں حاصل کرنے کے لیے اور ایک دوسرے کے کمانڈرز اور گروپوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

یہ رجحان جنوری میں شروع ہوا اور فروری میں شدت اختیار کر گیا۔ جنوری کے مقابلے میں، جہاں ہر گروپ نے چار گروپوں کو اپنے ساتھ ملایا تھا، فروری میں ٹی ٹی پی کے ساتھ دو اور حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ تین گروه ملے۔ یہ تمام ملحقہ گروہ خیبر پختونخوا سے تھے، جب کہ جنوری میں بلوچستان سے بھی گروپ ٹی ٹی پی میں شامل ہوا تھا۔

مثال کے طور پر، خیبر ضلع کے علی بدہ اور شمالی وزیرستان (داتہ خیل) کے کمانڈر ذوالفقار کے ساتھی فروری میں ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے۔ ان دونوں کے ساتھ ٹی ٹی پی نے جولائی 2022 کے بعد 75 جنگجو گروپوں کو اپنی صفوں میں شامل کر لیا ہے، جس سے اس کی آپریشنل اور تنظیمی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی کی حافظ گل بہادر اور لشکر اسلام کے ساتھ طاقت کی لڑائی کے تناظر میں، شمالی وزیرستان اور خیبر کے اضلاع میں کامیاب الحاق اس بات کا اشارہ ہیں کہ اس لڑائی میں شدت آئے گی۔

ٹی ٹی پی نے پاکستان کے دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ سیاسی اور فوجی اتحاد کے لیے تین اصول وضع کیے ہیں: پہلا اتحاد اور تعاون، دوسرا غیر شریعتی عملوں سے بچنا، تیسرا اور آخری اللہ کے لیے وفاداری کے اصول کے تحت تعلقات۔

ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے حافظ گل بہادر نے لشکر اسلام کے ساتھ اپنا اتحاد مستحکم کر لیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے جہادی گروپوں کا ایک مجموعہ ہے، جیسے کہ جیشِ عمری، جیشِ فرسانِ محمد، مجلسِ عسکری، حکیم اللہ محسود کاروان، جبہ انصار المہدی خراسان اور جبہ انصار الجہاد وغیرہ۔

اسی دوران، حافظ گل بہادر گروپ نے اپنی تنظیمی ساخت میں تبدیلی کی ہے اور اپنی پروپیگنڈہ صلاحیتوں کو بھی بہتر کیا ہے تاکہ مزید گروپوں کو اپنی صفوں میں شامل کر سکے۔ حال ہی میں القاعدہ کے 313 بریگیڈ کی شمولیت سے گل بہادر کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی اور جے یو اے میں لڑائی

ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیم جماعت الاحرار (جے یو اے) کے اختلافات ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر چکے ہیں، اور یہ جھگڑا خیبر ضلع کے ایک مقامی تاجر شیر محمد آفریدی کے قتل کے نتیجے میں ہوا۔

فروری میں، جے یو اے کے جنگجوؤں نے آفریدی کو جاسوسی کے الزامات میں اغوا کیا اور جے یو اے کے لیڈر قاری اسماعیل کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ قاری اسماعیل ٹی ٹی پی کا شیڈو گورنر تھا اور سکیورٹی فورسز نے اسے مار دیا تھا۔ جے یو اے کے ایک جنگجو نے آفریدی کو قتل کر دیا حالانکہ ٹی ٹی پی کے 18 علما نے اس کے قتل کی تحقیقات کی اور اسے بے گناہ قرار دیا۔ ٹی ٹی پی نے اس قتل پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور جے یو اے کے جنگجو کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

بلوچستان کی شاہراہوں پر بڑھتے ہوئے حملے

پاکستان کے معدنیات سے مالامال صوبہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے اہم شاہراہوں کو بلاک کرنے کے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ ’پاکستانی ریاست کے لاجسٹک، اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات کو نقصان پہنچایا جا سکے۔‘ 2025 کے پہلے دو مہینوں میں، بلوچ علیحدگی پسندوں نے بلوچستان کی تین اہم شاہراہوں (کوئٹہ-سکھر شاہراہ) اور کوئٹہ-چمن قومی شاہراہ کو چار مرتبہ بلاک کیا۔

یہ حملے بلوچ علیحدگی پسندوں کی نئی حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ ’پاکستانی ریاست کی بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر کنٹرول کمزور ہونے کا تاثر دیا جا سکے۔‘ رپورٹ کے مطابق، انہوں نے سڑکوں پر روڈ بلاک قائم کیے، گاڑیوں کو چیکنگ کے لیے روکا اور قافلوں پر حملے کیے۔ اسی طرح بی ایل آزاد نے ایک عرصے بعد اپنے پرتشدد واقعات کو بڑھاتے ہوئے مارچ میں کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر ایف سی کے ایک قافلے پر خاتون خودکش بمبار کے ذریعے ایک فوجی افسر کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا، تاہم اس کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار جان سے گیا۔

اسی مثال کے طور پر،یکم فروری کو بلوچستان کے قلات ضلع کے منگچر علاقے میں بلوچ لبریشن آرمی آزاد کے 60 سے 80 کے قریب جنگجوؤں نے فرنٹیئر کور کے 18 اہلکاروں کو قتل کر دیا۔ بلوچ لبریشن آرمی آزاد کے جنگجوؤں نے کوئٹہ-کراچی روڈ کو بلاک کیا تھا اور اسی دوران ایف سی کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ ایف سی نے جوابی فائرنگ میں 24 بلوچ لبریشن آرمی آزاد کے جنگجوؤں کو مارنے کا دعویٰ کیا۔ بی ایل اے کا اسلم بلوچ کی سربراہی میں تنظیمی ڈسپلن پر نکالے جانے کے بعد یہ بی ایل آزاد کا پہلا اہم حملہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح، 24 فروری کو یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے جنگجوؤں نے بولان میں سکھر-کوئٹہ قومی شاہراہ پر ٹریفک کو روک کر دو افراد کو قتل کر دیا۔ اسی طرح، 28 فروری کو کوئٹہ کی جان محمد روڈ پر ایف سی کی گاڑی پر دھماکہ کر کے آٹھ افراد، جن میں ایک ایف سی اہلکار بھی شامل تھا، زخمی ہو گئے۔

پرتشدد واقعات میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب بی ایل اے بشیرزیب نے بولان کے قریب جعفر ایکسپریس کو روک کر ٹرین کو ہائی جیک اور مسافروں کو یرغمال بنایا، جس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی۔

پاکستان میں تشدد کے مزید بڑھنے کا امکان ہے، حالانکہ ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر کے درمیان کچھ اختلافات سامنے آئے ہیں، جس سے تشدد کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

حال ہی میں ٹی ٹی پی نے ’الخندق‘ کے نام سے حملوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا ہے اور ساتھ ہی لاہور میں ایک خودکش دھماکہ کرنے کی کوشش کی جس کو ناکام بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی نے لکی مروت اور بنوں اضلاع کے چھ تھانوں پر بیک وقت حملے بھی کیے۔

اس کے ساتھ ساتھ، بلوچ علیحدگی پسندوں کی حکمت عملی میں شہری گوریلا جنگ کی طرف تبدیلی اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ جنگ پاکستان کے بڑے شہروں تک پھیل سکتی ہے، جیسا کہ کراچی میں حالیہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی شاہراہوں کو بلاک کرنے اور حملے کرنے کی حکمت عملی ان کی شہری جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز کو اپنے ادارہ جاتی رابطوں کو مزید مضبوط کرنا ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی میں انٹیلی جنس کے خلا کو پر کرنا ہوگا تاکہ وہ شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے نیٹ ورک سے آگے رہ سکیں اور ان کی بدلتی ہوئی آپریشنل حکمت عملیوں کو ناکام بنا سکیں۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔  X: @baistresearcher.

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر