افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کی مخالفت کروں گا، شہریت دینی چاہیے: علی امین گنڈاپور

علی امین گنڈاپور نے اتوار کو پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اگر ہمارے حکمران امریکہ، کینیڈا، اور دیگر ممالک کی شہریت پر خوش ہوتے ہیں تو افغانوں کو پاکستانی شہریت دینے میں کیا حرج ہے۔‘

خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور 27 نومبر 2024 کو مانسہرہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خطاب کر رہے ہیں (عاطف حسین/ اے ایف پی)

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اتوار کو پشاور میں کہا ہے کہ ’یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کہ افغانستان میں حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود ہم افغان پناہ گزینوں کو بے سروسامان واپس بھیج رہے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت نے اس معاملے میں مجھ سے کوئی مشاورت نہیں کی اور جب میرے صوبے سے افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کی بات ہوگی، تو میں اس پالیسی کی مخالفت کروں گا۔‘

افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت دینے کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’اگر ہمارے حکمران امریکہ، کینیڈا، اور دیگر ممالک کی شہریت پر خوش ہوتے ہیں تو افغان باشندوں کو شہریت دینے میں کیا حرج ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’باقاعدہ جانچ پڑتال کر کے افغان پناہ گزینوں کو بھی شہریت دینی چاہیے کیونکہ افغانستان بھی ایک ملک ہے اور دیگر ملکوں کی طرح ہمیں بھی افغان باشندوں کو شہریت دینی چاہیے۔‘

علی امین گنڈاپور کے مطابق ’یہ انتہائی زیادتی ہے کہ ہم افغان پناہ گزینوں کو سرحد کے اس پار پھینک دیں جہاں ان کے لیے زندگی کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔‘

طورخم بارڈر کی بندش کے حوالے سے علی امین نے کہا کہ ’دو جرگے ہوئے لیکن ناکام رہے اور یہ بھی وفاقی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔‘

وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے افغان پناہ گزینوں کو 31 مارچ کی ڈیڈ لائن اور ملک سے نکالنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حالات مزید بھی خراب ہو سکتے ہیں لیکن وفاقی حکومت اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے افغانستان سے مذاکرات کے لیے میں نے بات کی تو مجھ پر تنقید کی گئی، لیکن بعد میں بتایا گیا کہ مذاکرات کے لیے ٹی او آرز بنا کر وفاقی حکومت کو بھیج دیں۔‘

علی امین کے مطابق، ’ہم نے ایک چھوٹے لیول کا جرگہ اور ایک بڑے لیول کا جرگہ تشکیل دیا ہے لیکن دو مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک ہمیں ٹی او آرز پر کوئی جواب وفاقی حکومت سے نہیں ملا ہے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے جمعے کو افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی)  رکھنے والے افغان شہریوں سے کہا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 تک رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑ دیں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا پروگرام (آئی ایف آر پی) یکم نومبر 2023 سے نافذ العمل ہے اور حکومت کے تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے تسلسل میں قومی قیادت نے اب افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو واپس ان کے وطن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید کہا گیا: ’تمام غیر قانونی غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں۔ اس کے بعد یکم اپریل 2025 سے ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔‘

وزارت داخلہ نے واضح کیا کہ افغان شہریوں کی باعزت واپسی کے لیے پہلے ہی کافی وقت دیا جا چکا ہے۔ بیان میں زور دیا گیا تھا کہ ’واپسی کے عمل کے دوران کسی کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا جائے گا، نیز واپس جانے والے غیر ملکیوں کے لیے خوراک اور طبی سہولیات کے انتظامات بھی کر دیے گئے ہیں۔‘

وزارت داخلہ کے مطابق: ’پاکستان نے خوش اخلاقی کے ساتھ افغان شہریوں کی میزبانی کی اور بطور ذمہ دار ریاست  تمام وعدے اور ذمہ داریاں پورا کر رہا ہے۔ یہ دوبارہ واضح کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقیم تمام افراد کو قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے اور پاکستان کے آئین کی مکمل پابندی کرنا ہوگی۔‘

پریس کانفرنس میں علی امین گنڈاپور کا مزید کہنا تھا کہ حالات دن بدن بگڑ رہے ہیں لیکن یہ (وفاقی حکومت) اب بھی پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے اور سکیورٹی حالات کو بہتر کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

علی امین نے بتایا، ’خیبر پختونخوا کی پولیس حالات کا مقابلہ کر رہی ہے اور سرحد پار سے دہشت گردی کا مقابلہ بھی کر رہی ہے لیکن وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ چار ہزار بندوقوں کا آرڈر دیا ہے لیکن ابھی تک وہ ہمیں نہیں ملا ہے۔‘

امن و امان کی صورتحال پر مزید بات کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ افغانستان سے مذاکرات کے لیے ہم نے اپنی طرف سے پشاور کے افغان قونصل جنرل سے ملاقات کی ہے اور انہوں نے رضا مندی کا اظہار کیا ہے لیکن وفاقی حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔

پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے حوالے سے علی امین نے بتایا کہ صوبے کے وفاق پر بجلی کے خالص منافع کی مد میں دو ہزار ارب سے زائد بقایاجات ہیں لیکن وفاق دینے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا، ’ہمیں بلٹ پروف گاڑیاں پولیس کو دینے ہیں اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہے لیکن وفاق ہمیں اپنا جائز فنڈ نہیں دے رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان