جعفر ایکسپریس حملہ: کیا یہ پراکسی وار کا آغاز ہے؟

بی ایل اے ایک سہولت یافتہ تنظیم ہو سکتی ہے، لیکن اس حملے کی ترتیب اور مہارت کسی بڑے منصوبے کی جانب اشارہ کرتی ہے، جس کے لیے بڑی سطح کی پیش بینی درکار ہے۔

مچھ ریلوے سٹیشن پر 11 مارچ 2025 کو ایک فوجی ٹرین سے رہا کیے ہوئے افراد کو گاڑی سے نیچے اتار رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان طویل عرصے سے سکیورٹی چیلنجز سے نبرد آزما ہے، جن میں شدت پسندی، بغاوتیں، فرقہ وارانہ تشدد، اور منظم جرائم شامل ہیں۔

جدید تاریخ میں ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعات انتہائی نادر ہیں۔ عالمی سطح پر اس کی واحد مثال 1977 میں ڈچ ٹرین ہائی جیکنگ ہے، جسے مولوقی علیحدگی پسندوں نے انجام دیا تھا۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی حالیہ ٹرین ہائی جیکنگ میں حکمت عملی گوریلا جنگ کی تباہ کن تکنیکوں پر مبنی ہے جس میں دیسی ساختہ بم، اچانک حملے اور محدود پیمانے پر تخریب کاری شامل ہیں۔

کسی چلتی ہوئی ٹرین پر قبضہ کرنے کے لیے تین اہم عناصر کی ضرورت ہوتی ہے: انتہائی درست وقت بندی، ریلوے نیٹ ورکس کی گہرائی تک معلومات (ہر سوئچ اور سگنل تک)، اور بےعیب لاجسٹک ہم آہنگی، یہ سب کسی خصوصی آپریشن کی نشانیاں ہیں۔

اپنی 25 سالہ مزاحمتی تحریک کے دوران، بی ایل اے نے نہ تو اس سطح کی اعلیٰ کمانڈ اور کنٹرول کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی اتنے پیچیدہ حملے کے لیے درکار تکنیکی مہارت کو ظاہر کیا ہے۔

ٹرین ہائی جیکنگ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے جو غیر روایتی جنگ کے عام طریقہ کار سے مختلف ہے۔ یہ غیر معمولی پہلو، ممکنہ طور پر کسی بیرونی ریاست کی جانب سے مدد کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے پاس اعلیٰ درجے کی مشن پلاننگ، انٹیلجنس، اور حملے کی مہارت موجود ہو۔

ٹرین کے درست مقام، رفتار اور کمزوری کی نشاندہی کرنا، خاص طور پر جب وہ قریبی سڑک سے 25 میل دور سرنگوں والے علاقے میں ہو، ایسی انٹیلیجنس کا تقاضا کرتا ہے جو بی ایل اے کی صلاحیتوں سے کہیں آگے ہے۔

کیا جعفر ایکسپریس سیٹلائٹ امیجری کی مدد کے بغیر ہدف بنی؟ کیا جعفر ایکسپریس ریلوے نیٹ ورک کی خفیہ گفتگو سنے بغیر نشانہ بنی؟ کیا غیر ریاستی عناصر (non-state actors) انٹیلی جنس کے میدان میں ریاست کے ساتھ یکساں طور پر موجود ہیں؟

بی ایل اے جیسے باغی گروہ مقامی زمینی سطح کی جاسوسی (reconnaissance)  پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ ریاستی عناصر کے پاس سگنلز انٹیلیجنس (SIGINT) اور انسانی انٹیلیجنس (HUMINT) کے پیچیدہ نیٹ ورکس موجود ہوتے ہیں۔

حملے کی انتہائی درست لوکیشن ظاہر کرتی ہے کہ اس سطح کی نگرانی کسی ریاستی سرپرستی کا عندیہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں افراد اور ہتھیاروں کی منتقلی شامل ہے۔

اس میں مشکل اور پہاڑی علاقوں میں دھماکہ خیز مواد کی منتقلی شامل ہے، وہ بھی بغیر کسی سراغ کے۔

اس کے لیے پہلے سے وسائل کی منتقلی، سپلائی چینز، اور فوجی سطح کی گاڑیوں کی مدد درکار ہوتی ہے، جو بی ایل اے کی رسائی سے باہر ہیں۔

جعفر ایکسپریس کو جس انداز میں ہائی جیک کیا گیا، وہ خصوصی تربیت اور سرنگوں میں لڑنے کی مخصوص حکمت عملی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

گذشتہ 25 سالوں سے، بی ایل اے مقامی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہی ہے اور بنیادی ڈھانچے پر حملے کر رہی ہے تاکہ پاکستان کے کنٹرول کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

آبادی سے دور ایک ٹرین کو ہدف بنانا، یہ زیادہ سے زیادہ انتشار اور علامتی اثر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فوری جوابی حملے کو کم سے کم کرنے کا منصوبہ لگتا ہے۔

یہ طریقہ کار بی ایل اے کے عام حملوں سے زیادہ کسی ریاستی سٹریٹجک حکمت عملی سے مشابہت رکھتا ہے۔

بی ایل اے ایک سہولت یافتہ تنظیم ہو سکتی ہے، لیکن اس حملے کی ترتیب اور مہارت کسی بڑے منصوبے کی جانب اشارہ کرتی ہے، جس کے لیے بڑی سطح کی پیش بینی درکار ہے۔

بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، لیکن حقیقت میں یہ آپریشن کسی پراکسی وار کی نشاندہی کرتا ہے۔

ریاستیں اکثر وسائل فراہم کرتی ہیں اور شورش پسند تنظیموں کو استعمال کرتی ہیں تاکہ خود کو براہ راست ملوث ہونے سے بچایا جا سکے۔

بی ایل اے کی صلاحیت اس حملے کو تنہا انجام دینے کے قابل نہیں لگتی۔ لگتا ہے کہ کسی ریاستی سرپرست نے انٹیلی جنس، تربیت اور ہتھیار فراہم کیے اور پھر پیچھے ہٹ کر بی ایل اے کو سارا کریڈٹ لینے دیا۔

سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے بروقت اور مناسب اقدامات کب کیے جائیں گے؟ کب سکیورٹی مسائل کو اولین ترجیح دی جائے گی؟

یہ واقعہ اپنی نوعیت میں نیا ہو سکتا ہے، لیکن اس کا مقصد وہی پرانا ہے جو دہائیوں سے اس قوم کا پیچھا کر رہا ہے۔

حکام کو انصاف سے زیادہ دکھاوے کی فکر ہے۔ چند لاشیں کیمروں کے سامنے پیش کر کے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں، تیز ردِعمل کا دعویٰ کرتے ہیں اور پروپیگنڈہ پھیلا کر دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی بحران نہیں اور ریاست مکمل کنٹرول میں ہے۔

استحکام کے لیے لمبی تقریروں کی نہیں، بروقت اور درست انٹیلی جنس پر مبنی عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو درپیش سکیورٹی خطرات حقیقی ہیں، چاہے وہ توانائی کا بحران ہو، موسمیاتی تبدیلی ہو، یا سرحدی تنازعات۔ اس وقت کی گئی کوتاہی مزید تشدد اور بغاوت کو جنم دے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر