0 seconds of 3 minutes, 49 secondsVolume 90%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
03:49
03:49
 

پاکستان میں سوچ سے زیادہ عزت ملی: بیساکھی میلے میں شریک انڈین یاتری

کچھ مہمان سکھ یاتری گردوارہ پنجہ صاحب میں بہترین انتظامات فراہم کیے جانے پر پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دیے تو چند یاتریوں نے انتظامات کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔

سکھوں کے مذہبی تہوار بیساکھی میلے کی تقریبات 10 اپریل سے حسن ابدال میں گردوارہ پنجہ صاحب میں جاری ہیں جو 17 اپریل کو اختتام پذیر ہوں گی۔

ڈپٹی کمشنر اٹک اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر اٹک سمیت دیگر ضلعی افسران نے پاکستان آمد پر سکھ یاتریوں کا استقبال کیا۔

بیساکھی میلے میں شرکت کرنے والے سکھ یاتریوں کے قیام و طعام کے انتظامات گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال میں کیے گئے ہیں جبکہ گردوارے کو برقی قمقموں کی مدد سے سجایا گیا ہے۔

ڈی پی او اٹک سردار غیاث گل خان کے مطابق 1500 پولیس افسران اور اہلکار سکھ یاتریوں کی سکیورٹی پر مامور ہیں۔ بلند عمارتوں پر ماہر نشانہ باز تعینات کر دیے گئے ہیں جبکہ سراغ رساں کتے بھی پولیس اہلکاروں کے ہمراہ موجود ہیں۔

دوسری جانب سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے بھی نگرانی کا عمل جاری ہے۔

ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا نے اس حوالے سےانڈپینڈنٹ اردو کو کہا کہ ’ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سکھ یاتریوں کو بہترین سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور ان کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھا گیا ہے تاکہ وہ پرامن طریقے سے اپنی مذہبی رسومات ادا کرسکیں۔‘

کچھ مہمان سکھ یاتری گردوارہ پنجہ صاحب میں بہترین انتظامات فراہم کیے جانے پر پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دیے تو چند یاتریوں نے انتظامات کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔

انڈیا کے چندی گڑھ سے آئے جگجیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’بیساکھی میلے کے لیے آنے والے سکھ یاتریوں کو دگنی تعداد میں ویزے جاری کیے جانے پر پاکستان اور انڈین حکومتیں خراج تحسین کی مستحق ہیں۔

’یہاں ہماری رہائش، لنگر اور سکیورٹی کے لیے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں جس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں لیکن دو چیزوں میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔‘

انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سکھ یاتری بابا ولی قندہاری کی چلہ گاہ کا رخ بھی کرتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹی پرواقع ہے، جہاں پہنچنے کے لیے بہت دشوار گزار اور خطرناک راستے پر چلنا پڑتا ہے۔

’اگر راستے کے دونوں اطراف لوہے کے باڑ لگا دیے جائیں تو اس کے سہارے یاتریوں کو اوپرچلہ گاہ تک جانے اور نیچے اترنے میں بھی آسانی ہوگی جبکہ پہاڑ سے گرنے کاخطرہ بھی نہیں ہو گا۔‘

دوسری تجویز سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ گردوارہ کے اندر جوڑا گھر (جوتے رکھنے کی جگہ) کو ’پرکرم‘ سے دور ہونا چاہیے۔

 ’پرکرم‘ یعنی وہ  مقدس مقام جہاں سکھ یاتری دعائیں کرتے ہوئے ننگے پاؤں عقیدت سے چکر لگاتے ہیں۔

انڈیا کے امرتسر سے نوجوان سکھ یاتری ہرمن سنگھ اپنے گھر والوں کو یاد کرتے ہوئے افسردہ ہو گئے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بیساکھی میلے کی تقریبات میں شرکت کے لیےاکیلے آئے ہیں کوئی رشتے دار یا دوست ان کے ساتھ یہاں موجود نہیں۔

 ’گھر والوں سے بات کرنے کے لیے اگر گردوارے کے اندر وائے فائے کی سہولت صرف آدھے گھنٹے کے لیے بھی فراہم کر دی جاتی تو ان کی خیریت دریافت کر لیتا جس سے دل کو اطمینان ہو جاتا۔‘

امرتسر سے آئے سکویندر سنگھ  گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال دوسری مرتبہ آئے ہیں۔

سکویندر سنگھ اور ان کے ساتھی ہاتھوں میں اٹھائے چند چیزیں مفت تقسیم کر رہے تھے۔

دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال جب وہ یہاں آئے تو’ نگر کیرتن کے جلوس میں بچوں کے پہناوے اور بناؤ سنگھار سے متعلقہ چیزیں کچھ انڈین سکھ یاتری بہت مہنگی فروخت کر رہے تھے جس کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ انڈیا میں ایک روپے میں ملنے والی سلائی یہاں 100 روپے میں فروخت کی جا رہی تھی۔

 ’اس سال ہم بہت سا سامان بچوں میں مفت  تقسیم کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ لائے ہیں لیکن اس سال گردوارہ پنجہ صاحب میں نگر کیرتن نہیں ہوا پھر بھی جو بچہ ہمارے پاس آتا ہے یہ بناؤ سنگھار کا سامان ان کو مفت دیا جاتا ہے۔‘

ایک اور سکھ یاتری سیوا سنگھ نے اپنے بچپن کے مسلمان  دوستوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جو تقسیم کے بعد سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں رہائش پزیر ہوئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے توسط سے انہوں نے اپنے بچپن کے مسلمان دوستوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ 14 اپریل کو کرتارپورہ میں ان سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان