ججز سنیارٹی کیس: قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس

آئینی بینچ نے پیر کواسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے اور تبادلہ ہو کر آنے والے ججز کو فوری کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد میں موجود پاکستان کی سپریم کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں آئینی بینچ نے ججز سنیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے اور تبادلہ ہو کر آنے والے ججز کو فوری کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے پیر کو ججز سنیارٹی کیس کی سماعت کے دوران چند اہم سوالات بھی کیے ہیں۔

بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس نعیم افغان جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔

دوران سماعت عدالت عظمی کے اہم آئینی سوالات

بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سنیارٹی کیا ہو گی؟ ایک بات واضح ہے کہ سول سروس ملازمین کے سنیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے اب دیکھنا یہ ہے کیا سنیارٹی پرانی ہائی کورٹ والی چلے گی؟ دوسرا سوال ہے کیا تبادلے کے بعد نئی ہائی کورٹ سے سنیارٹی شروع ہو گی؟

جسٹس نعیم اختر افغان نے بھی ججز تبادلے پر اہم سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا سکوپ موجودہے؟ درخواست گزاروں کے وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا ذکر ہے۔‘

جسٹس نعیم اختر افغان مزید کہا کہ ’جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کئے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ کون سے ہائی کورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟‘

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف اٹھاتے ’اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری‘ کا ذکر آتا ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقع پر کہا کہ ’ہم جب عارضی جج بنتے ہیں تو حلف ہوتا ہے مستقل ہونے پر دوبارہ ہوتا ہے، سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔‘

منیر اے ملک نے کہا کہ ’اسی لیے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لے کر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’ہمارے سامنے سات مختلف درخواستیں موجود ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کے وکیل منیر اے ملک  اور بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ہائی کورٹ کے ججوں کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سنیارٹی میں تبدیلی پر؟‘ تو منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے انہیں کہا کہ ’جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت ہوا وہ پڑھ دیں۔‘

منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو اس کی رضامندی ضروری ہے، دونوں متعلہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازمی ہے، چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی بھی لازم قرار دی گئی ہے۔‘

منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جج کا تبادلہ صرف عارضی طور پرہو سکتا ہے مستقل نہیں، ہمارا اعتراض یہ ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے جواباً کہا کہ ’ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا جاتا وہاں تو عارضی یامستقل کا زکر ہی نہیں، آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر پاکستان جج کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔‘

درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ جوڈیشل کمیشن کا آئندہ اجلاس 18 اپریل کو ہے جس میں قائم مقام چیف جسٹس کو مستقل کیے جانے کا امکان ہے عدالت حکم امتناع جاری کرے تاکہ کیس متاثر نہ ہو۔ عدالت نے حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مزید دلائل کے لیے سماعت 17 تک ملتوی کر دی۔

عدالت نے جوڈیشل کمیشن، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور اسلام آباد ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔ اس کے علاوہ عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہونے والے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس محمد آصف کو بھی نوٹس کر دیا۔

ججز کی سنیارٹی کے خلاف دائر درخواستوں کا متن

ججز سنیارٹی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں سمیت کل سات درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی سمیت پانچ ججز نے سنیارٹی کے خلاف دائر کردہ ریپریزنٹیشن مسترد ہونے کے بعد وکیل منیراے ملک، بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کی۔

درخواست گزارججز میں جسٹس محسن کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابرستار، جسٹس رفعت امتیاز اور جسٹس بابرستار شامل ہیں۔درخواست میں وفاقی حکومت، ٹرانسفر کیے گئے ججز اور مختلف ہائیکورٹس کو فریق بنایا گیا ہے، جبکہ درخواست کے ساتھ حکم امتناعی کی علیحدہ درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔

دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ قرار دے صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں، مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ درخواست کا فیصلہ ہونے تک جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت تین ججز کو کام سے روکا جائے۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ صدر کے اختیارات کو جوڈیشل کمیشن کی منظوری سے مشروط کیا جائے۔

دیگر درخواست گزاروں میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار، کراچی ہائی کورٹ بار، کراچی بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ، بار، لاہور ڈسٹرکٹ بار اور بانی پی ٹی آئی عمران خان شامل ہیں۔

ججز سنیارٹی کے معاملہ پر اسلام ہائی کورٹ میں دائر ری پریزینٹیشن پر فیصلہ کیا تھا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بطور سپریم کورٹ جج حلف سے قبل پانچ ججوں کی ریپریزنٹیشن رواں برس فروری میں مسترد کرتے ہوئے آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئین ججز کی تعیناتی اور تبادلے میں فرق واضح کرتا ہے، تعیناتی اور تبادلے کو ایک ہی معنی نہیں دیے جا سکتے، ہائی کورٹ کا جج تعینات ہونے پر حلف اٹھا کر آفس سنبھالتا ہے۔

ہائی کورٹ کے جج کے تبادلے پر دوبارہ حلف اٹھانے سے متعلق پروسیجر خاموش ہے۔

یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جج تبادلے کے بعد ہائی کورٹ میں آفس سنبھالتے وقت دوبارہ حلف لے۔ اگر  ٹرانسفر ہونے والے جج کا دوبارہ حلف ضروری ہوتا تو آئین میں اس کا ذکر کیا جاتا۔

تحریری فیصلے کے مطابق لاہور ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے جسٹس سرفراز ڈوگر نے 8 جون 2015 کو بطور لاہور ہائی کورٹ جج حلف اٹھایا، جسٹس خادم حسین سومرو نے 14 اپریل 2023 کو سندھ ہائی کورٹ جبکہ جسٹس محمد آصف نے 20 جنوری 2025 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔

ان تینوں ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ رواں برس یکم فروری کو ٹرانسفر کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر نے ججز کو چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کیا، تینوں ججز ٹرانسفر سے قبل حلف اٹھانے کے بعد اپنی متعلقہ ہائی کورٹس میں خدمات سر انجام دے رہے تھے لہذا انہیں دوبارہ حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان