مزاحمت کی آواز: کشمیر میں آن لائن نفرت کے خلاف برسرپیکار خاتون ریڈیو میزبان

آر جے مہک ایک نمایاں آواز کے طور پر ابھری ہیں، جو گذشتہ سات برسوں سے کشمیر کے ریڈیو منظرنامے کا ایک اہم حصہ رہی ہیں۔

سوشل میڈیا کے دور میں، جہاں ہر عمل کی باریک بینی سے جانچ ہوتی ہے، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خواتین ریڈیو میزبان (آر جے) ایک منفرد اور مسلسل جاری رہنے والی ڈیجیٹل دشمنی کا سامنا کر رہی ہیں۔ جو کبھی ایک آزاد اور بے تکلف گفتگو کا ذریعہ تھا، وہ اب ایک ایسا میدانِ جنگ بن چکا ہے جہاں مائیکروفون کے پیچھے موجود خواتین کو محض اپنے پیشے کی بنا پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مہک زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے بہت سارے سماجی مسائل کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن مجھے بہت زیادہ مزہ بھی آتا ہے اور تفریح پر توجہ مرکوز ہوتی ہے اس لیے یہ حقیقی طور پر ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔

’میرا سفر ایک نیوز چینل کے لیے بطور نیوز رپورٹر کام کرنے سے شروع ہوا اور پھر آخر کار ریڈیو مرچی کے لیے آڈیشنز ہوئے اور میں نے آڈیشن دیا اور میں 7 سال بعد یہاں ہوں۔‘

آر جے مہک ایک نمایاں آواز کے طور پر ابھری ہیں، جو گذشتہ سات برسوں سے کشمیر کے ریڈیو منظرنامے کا ایک اہم حصہ رہی ہیں۔

ان کو سننے اور چاہنے والوں کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھی ہے، مگر ان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ انہیں صنفی تعصب اور ’عورت دشمن‘ آن لائن حملوں کا مستقل ہدف بھی بناتا جا رہا ہے۔ دیگر خواتین کی طرح، انہیں بھی صرف اپنے کام کے لیے نہیں بلکہ ’اپنی آواز، شکل و صورت اور نجی زندگی‘ کے لیے بھی جانچا جاتا ہے۔

خواتین ریڈیو میزبان کے خلاف ہونے والی مخالفت مرد ہم منصبوں سے کہیں زیادہ شدت سے کی جاتی ہے۔ جہاں مرد آر جیز کو زیادہ تر ان کے پیشہ ورانہ انداز، مواد یا آرا پر تنقید کا سامنا ہوتا ہے، وہیں خواتین کو ذاتی اور صنفی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کیے جانے والے تبصرے اکثر ان کی شکل، لباس اور بولنے کے انداز پر مرکوز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ حملے اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ان کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، انہیں ’توجہ حاصل کرنے والی‘ قرار دیا جاتا ہے، یا ثقافتی اقدار سے انحراف کا الزام دیا جاتا ہے۔

مہک مزید کہتی ہے کہ ’نہیں میں نے کبھی چھوڑنے کی خواہش محسوس نہیں کی ہے۔ بہت چڑچڑاہٹ ہے یا میں اس حد تک چلی گئی ہوں جہاں میں کہوں کہ ٹھیک ہے میں سوشل میڈیا سے الگ ہونا چاہتی ہوں۔‘

یہ صرف عام ٹرولنگ نہیں بلکہ اس گہری جمی ہوئی پدرشاہی سوچ کا تسلسل ہے جو خواتین کو عوامی مقامات، خاص طور پر میڈیا اور تفریحی صنعت میں، دیکھنے کو تیار نہیں۔ ایک قدامت پسند معاشرے میں، جہاں خواتین کو پہلے ہی بے شمار رکاوٹوں کا سامنا ہے، سوشل میڈیا نے ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو صنفی نگرانی کے ایک نئے میدان میں بدل دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی خواتین آر جیز کے لیے اس آن لائن بدسلوکی کا ذہنی اور جذباتی بوجھ بے حد گہرا ہوتا ہے۔ مسلسل منفی تبصروں اور حقیقی دنیا میں نتائج کے خوف کی بنا پر، اکثر خود کو سنسر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

کچھ خواتین کسی بھی رائے کا اظہار کرنے سے ہچکچاتی ہیں، جبکہ کچھ یہ پیشہ ہی چھوڑنے کا سوچنے لگتی ہیں۔ یہ دباؤ اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب ادارے اپنے ملازمین کو آن لائن ہراسانی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر نظام فراہم نہیں کرتے۔

’ہاں میرا مطلب ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کیونکہ آن لائن مستقبل نہیں ہے بلکہ موجودہ دور میں ہم اس دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں آن لائن سب کچھ ہے اور خواتین کو اس سے باہر کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اس لیے سائبر قوانین کو بہت سخت کریک ڈاؤن کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ ٹرولنگ جیسی معمولی چیزوں پر بھی سختی سے کریک ڈاؤن کرنا پڑتا ہے۔‘

کچھ خواتین آر جیز نے آن لائن ہراسانی کے خلاف کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے اور ڈیجیٹل تحفظ کے بہتر اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ سائبر قوانین کو سخت کرنے اور ادارہ جاتی مدد کے مطالبے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس سمت میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔

فی الحال، ان کی جدوجہد صرف اپنی آواز کے لیے نہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں صنفی نفرت کے خلاف ایک وسیع تر جنگ کا حصہ ہے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اب بھی اپنی شناخت اور احترام کے لیے لڑ رہی ہیں، یہ آر جیز محض تفریح فراہم کرنے والی شخصیات نہیں بلکہ بغاوت کی علامت ہیں۔ ان کی آوازیں نہ صرف فضاؤں میں گونج رہی ہیں بلکہ سماجی بندشوں کے خلاف ایک مضبوط احتجاج کا بھی حصہ بن رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین