نو مئی کیسز: عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد

نو مئی کے مقدمات میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ’ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ نے نو مئی کے مقدمات میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی دائر کردہ استدعا مسترد کرتے ہوئے اپیلیں نمٹا دیں۔

دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ’ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

بدھ کے روز جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم شامل ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے پنجاب حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’یہ کس نوعیت کا مقدمہ ہے جس کے لیے آپ جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خصوصی پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت سے کہا کہ ’ہم نے ملزم کے تین ٹیسٹ کروانے ہیں، ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کروانے ہیں مگر ملزم ٹیسٹ کروانے کے لیے تعاون نہیں کر رہا۔‘

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ’درخواست میں استدعا ٹیسٹ کروانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی، ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا، ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟‘

جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائی کورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا اب یہ درخواست غیر مؤثر ہو چکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔‘

سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس چاہتے ہیں ملزم تعاون کرے۔‘

جسٹس صلاح الدین پنور نے پنجاب حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کے خلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو جا کر اس کا فرانزک کروائیں۔

’کسی قتل اور زنا کے مقدمے میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کروائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی کارکردگی دکھائے گی۔‘

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا لیکن ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کے لیے میرے موکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا،

’ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی اور نہ ہی ٹیسٹ کروائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے مطمئن نہیں کر سکی۔‘

عدالت نے اپیلیں نمٹاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، جبکہ عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان