ایک ایسے وقت میں جب آزادی پسند کشمیری جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کی کال پر ہزاروں کشمیری لائن آف کنٹرول کی جانب مارچ کر رہے ہیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے ایل او سی پار کرنے کی کسی کوشش کو ’انڈین بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنا‘ قرار دینے پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
کشمیری قیادت کی اکثریت وزیر اعظم کے اس بیان کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور ’بے موقع‘ قرار دے رہی ہے۔
ہفتے کی صبح عین اُس وقت جب یہ مارچ مظفرآباد سے چکوٹھی کی طرف روانہ ہو رہا تھا، وزیر اعظم عمران خان کی یکے بعد دیگرے دو ٹویٹس سامنے آئیں جن میں انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ایل او سی پار کرنے کی کسی کوشش کو ’انڈین بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنے‘ کے مترادف قرار دیا۔
وزیر اعظم نے اپنی پہلی ٹویٹ میں لکھا کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 2 ماہ سے جاری غیر انسانی کرفیو میں گھرے کشمیریوں کے حوالے سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لوگوں میں پایا جانے والا کرب سمجھ سکتے ہیں لیکن اہل کشمیر کی مدد یا جدوجہد میں ان کی حمایت کی غرض سے جو بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ایل او سی پار کرے گا وہ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔
اسی سلسلے کی دوسری ٹویٹ میں انہوں نے اس بیانیے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ بیانیہ جس کے ذریعے پاکستان پر ’اسلامی دہشت گردی‘ کا الزام لگا کر ظالمانہ بھارتی قبضے کے خلاف اہل کشمیر کی جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایل او سی پار کرنے سے بھارت کو وادی میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور جنگ بندی لکیر کے اُس پار حملہ کرنے کا جواز ملے گا۔‘
وہ بیانیہ جس کے ذریعے پاکستان پر "اسلامی دہشت گردی" کا الزام لگا کر ظالمانہ بھارتی قبضے کیخلاف اہل کشمیر کی جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایل او سی پار کرنے سے بھارت کو مقبوضہ وادی میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور جنگ بندی لکیر کے اس پار حملہ کرنے کا جواز ملے گا۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) October 5, 2019
وزیر اعظم کی ٹویٹس سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شدید ردعمل سامنے آیا۔
صحافی حامد میر نے لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کو اقوام متحدہ سے واپسی پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سب جماعتوں کو اعتماد میں لے کر لائن آف کنٹرول کراس کرنے کے معاملے پر ان سے بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ ’ایل او سی توڑنے کی خواہش کو بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف قرار دینا غلط فہمیاں پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔‘
وزیراعظم عمران خان کو چاہئیے تھا کہ اقوام متحدہ سے واپسی پر آزاد کشمیر کی سب جماعتوں کو اعتماد میں لیتے اور لائن آف کنٹرول کراس کرنے کے معاملے پر ان سے بات چیت کرتے ایل او سی توڑنے کی خواہیش کو بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف قرار دینا غلط فہمیاں پیدا کرنے کا باعث بنے گا
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) October 5, 2019
ایک دوسری ٹویٹ میں حامد میر نے لکھا کہ: ' کشمیری لائن آف کنٹرول کو نہیں مانتے۔ یہ 1948 میں سیز فائر لائن قرار دی گئی۔ اسے 1958میں مسلم کانفرنس کے رہنما چوہدری غلام عباس نے توڑنے کا اعلان کیا اور شملہ معاہدے کے بعد یہ ایل او سی قرار پائی آج (پاکستان کے زیرانتظام) کشمیر کی سب پارٹیاں اسے توڑنا چاہتی ہیں، ان کی یہ خواہش بھارتی بیانیہ کیسے ہو گئی؟‘
کشمیری لائن آف کنٹرول کو نہیں مانتے یہ 1948 میں سیز فائر لائن قرار دی گئی اسے 1958میں مسلم کانفرنس کے رہنما چوہدری غلام عباس نے توڑنے کا اعلان کیا شملہ معاہدے کے بعد یہ ایل او سی قرار پائی آج آزاد کشمیر کی سب پارٹیاں اسے توڑنا چاہتی ہیں انکی یہ خواہیش بھارتی بیانیہ کیسے ہو گئی؟
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) October 5, 2019
اس حوالے سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے الفاظ کا چناؤ اور موقع کا انتخاب انتہائی غیر مناسب تھا اور یہ مجموعی طور پر سب کی دل آزاری کا باعث بنا۔
ان کا کہنا تھا: ’مارچ میں سبھی محب وطن کشمیری ہیں بلکہ کئی ایک تو ایسے ہیں جن کے خاندان کا نصف حصہ ایل او سی کی دوسری طرف ہے۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی کشمیری بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلے گا۔‘
مشتاق منہاس کا مزید کہنا تھا کہ: ’بھارت کا میڈیا پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ ایل او سی کی طرف آنے والوں کو پاکستان کی مدد حاصل ہے اور ایسے میں وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ یہ لوگ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں سمجھ سے بالا تر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’62 دن سے لوگ کرفیو کی حالت میں ہیں اور اپنے پیاروں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔ ایسی حالت میں اس طرح کا بیان رنجیدہ کشمیریوں کے لیے مزید تکلیف کا باعث ہے۔ بہتر ہوتا وزیر اعظم الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرتے۔‘
دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور کشمیری ہم ایل او سی کو نہیں مانتے۔ ہم اسے سیز فائر لائن کہتے ہیں اور اس کو عبور کرنے کا حق ہمیں اقوام متحدہ کی قرارداوں کے تحت حاصل ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا: ’ہماری جماعت مسلم کانفرنس نے 1958 میں چکوٹھی سے سیز فائر لائن عبور کی اور دوسری جانب جانے والے ہمارے چھ لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ ہم اِس وقت بھی سیز فائر لائن توڑنے کے حامی ہیں اور جے کے ایل ایف سمیت تمام جماعتوں کے ساتھ اس پر مشاورت بھی ہوئی ہے۔ البتہ اس کے لیے وقت کے تعین پر ہمارے تحفظات ہیں۔ اس وقت ہماری توجہ کا مرکز سری نگر ہونا چاہیے۔‘
وزیر اعظم عمران خان کی ٹویٹس کے حوالے سے سردار عتیق احمد خان کا کہنا تھا کہ: ’ان کی وضاحت وہ خود یا ان کا کوئی ترجمان کر سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات کس تناظر میں کہی البتہ ایل او سی یا سیز فائر لائن کو توڑنے کا حق ہر کشمیری باشندے کو حاصل ہے۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی کے مطابق ’وزیر اعظم کی ان ٹویٹس کا سادہ اور آسان الفاظ میں مطلب یہی ہے کہ ایل او سی کراس کرنے کی کسی بھی کوشش کی اجازت نہیں دی جائے گی اور پاکستان کشمیری شہریوں کو ایل او سی کی جانب جانے سے ہر صورت روکے گا۔‘ ان کے بقول ’یہ شملہ معاہدے کی زنجیر ہے جسے پاکستان نے غیر ضرور طور پر پہن رکھا ہے۔‘
امریکہ میں مقیم جے کے ایل ایف کے بانی رہنما راجہ مظفر نے وزیراعظم عمران خان کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا: ’بھارت نے پانچ اگست کو ایل او سی سمیت ان سب معاہدوں سے منہ موڑ لیا جو کشمیریوں کی مدد میں آپ کے پاؤں کی زنجیر تھے۔ مظاہرین بھارت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور آپ کی اس ٹویٹ نے کشمیریوں کو سخت مایوس کردیا ہے۔‘
وہ کیسے؟ بھارت نے ۵ اگست کو ایل آؤ سی سمیت ان سب معاہدوں سے منہ موڑ لیا جو کشمیریوں کی مدد میں آپ کے پاؤں کی زنجیر تھے۔ عمران صاحب مظاہرین بھارت کے خلاف سراپا احتجاج اور آپ کی اس ٹویٹ نے کشمیریوں کو سخت مایوس کردیا ہے ۔
— Raja Muzaffar (@Rajammuzaffar) October 5, 2019
’پر امن عوامی آزادی مارچ‘ کے نام سے اس احتجاجی مارچ کی کال بھارت کی تہاڑ جیل میں قید حریت رہنما یاسین ملک کی جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے دی ہے اور منتظمین کے بقول اس میں دیگر جماعتوں کے سیاسی کارکنوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد اُن عام لوگوں کی ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں۔ یہ مارچ جس میں سرکاری ذرائع کے مطابق تین سے چار ہزار افراد موجود ہیں، اس وقت گڑھی دوپٹہ میں موجود ہے اور اتوار کی صبح یہاں سے چکوٹھی کی طرف روانہ ہو گا۔
اگرچہ حکام نے مارچ کو گڑھی دوپٹہ سے کچھ فاصلے پر روکنے کا انتظام کر رکھا ہے تاہم حکام نے اشارہ دیا ہے کہ اگر مظاہرین پر امن رہے تو انہیں چناری تک جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
مارچ کے منتظمین میں شامل جے کے ایل ایف کے رہنماؤں طاہر توقیر اور سردار انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت اس کو پاکستان کے ساتھ منسوب کر رہا ہے اور پاکستان اس کو بھارت کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں پا رہے کہ ہمارے پر امن مارچ سے دونوں ملکوں کا خطرہ کیوں ہے؟‘