دنیا کے مختلف ممالک اکتوبر کے مہینے میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلاتے ہیں، دنیا بھر کی تمام اہم عمارتیں باری باری گلابی رنگ اوڑھتی ہیں تاکہ لوگوں میں اس کینسر کے حوالے سے حساسیت پیدا کی جا سکے۔
دنیا میں اموات کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ چھاتی کا کینسر ہے۔ علاوہ ازیں یہ خواتین کو ہونے والا سب سے عام کینسر بھی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کینسر کے امکانات بھی زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ صرف پاکستان کی بات کریں تو ایشیا میں چھاتی کے کینسر کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہی ہے۔ ہر نو پاکستانی عورتوں میں سے ایک چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہے۔ ہر سال تقریباً 40 ہزار خواتین اس موذی مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
پوری دنیا کے اعداد و شمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ اسی لیے ایک پورا مہینہ اس کینسر سے آگاہی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ چھاتی کے کینسر کا شکار صرف خواتین ہی ہوتی ہیں جبکہ حقیقت میں یہ کینسر مردوں کو بھی ہوتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں میں بریسٹ ٹیشوز ہوتے ہیں۔ خواتین کے یہ ٹیشوز مختلف ہارمونز کی وجہ سے بڑے ہو کر مکمل بریسٹ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جبکہ مردوں میں یہ چپٹے ہی رہتے ہیں۔
مردوں میں چھاتی کے کینسر کی شناخت بہت دیر سے ہوتی ہے۔ وجہ وہی کہ یہ تو عورتوں کی بیماری ہے، مرد کو کیسے لگ سکتی ہے۔ ہمارے ہاں کے مرد تو ویسے بھی گھر بھر سنبھالے پھرتے ہیں لیکن خود کی پروا نہیں کرتے۔
خواتین میں بھی اس مرض کی شناخت دیر سے ہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ان کا اپنی ذات کو آخری حد تک نظر انداز کرنا ہے۔ ان کی تکلیف برداشت سے باہر ہو گی لیکن یہ ڈاکٹر کو نہیں دکھائیں گی۔ یہ تو خیر پورے معاشرے میں عام ہے۔ اکثر پڑھا لکھا طبقہ بھی شدید تکلیف میں ’خود ہی ٹھیک ہو جائے گا‘ کا ورد کرتا نظر آتا ہے۔ سادہ لوح لوگ جنہیں کم پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے وہ تو ساتھ ساتھ دم درود کے چکر میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس جائیں نہ جائیں، تعویز لینے باقاعدگی سے جاتے ہیں۔
کنواری لڑکیوں کے لیے چھاتی کا کینسر ان کی جیتے جی موت کے برابر ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں لڑکی کی پیدائش کا مقصد اس کی شادی ہی تصور کیا جاتا ہو، وہاں اس کے جسم کے کسی نسوانی حصے کی بیماری اس کے لیے زندگی بھر کا داغ بن کر رہ جاتی ہے۔
ایک لڑکی نے ذکر کیا کہ اسے 22 سال کی عمر میں چھاتی کا کینسر تشخیص ہوا تھا۔ تب وہ غیر شادی شدہ تھی۔ جب ڈاکٹر نے اس کی والدہ کو اس کے کینسر کے متعلق بتایا تو وہ صدمے میں چلی گئیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، ’اب میری بیٹی سے شادی کون کرے گا؟‘ یہ ان کے منہ سے نکلنے والے پہلے الفاظ تھے۔
ڈاکٹر نے انہیں خوب تسلی دی اور بتایا کہ مرض ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ باقائدہ علاج سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اس کی والدہ نے ایک طرح سے دنیا تیاگ دی اور اپنی پوری توجہ بیٹی کا کینسر ختم ہونے میں لگا دی۔ وہ تو بھلا ہوا کہ لڑکی کچھ ہی مہینے میں بھلی چنگی ہو گئی ورنہ والدہ محترمہ بیمار پڑ جاتیں۔ لڑکی کے صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے فوری اس کا رشتہ دیکھا اور اسے بیاہ دیا جیسے وہ کوئی ایکسپائری پراڈکٹ ہو۔
ہر جگہ ایسی صورتحال نہیں ہے۔ پچھلے برس مجھے ایک خاتون ملیں جنہوں نے بہت بہادری سے چھاتی کے کینسر کا سامنا کیا اور اس سفر میں ان کے شوہر کا مکمل تعاون انہیں حاصل رہا۔ یہ خاتون پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر انہوں نے اپنی بیماری کے دوران چھاتی کے کینسر کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کیں جتنی آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ خاتون اب چھاتی کے کینسر کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ اپنی صحت یابی کے بعد بھی یہ ہسپتال جاتی ہیں اور دیگر مریضوں کو حوصلہ دیتی ہیں۔
اس اکتوبر اپنے گھر کی خواتین کو میموگرافی کروانے ضرور لے جائیں۔ میموگرافی سے ہی چھاتی کا کینسر کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق انسان کو خود بھی اپنا باقاعدگی سے معائنہ کرنا چاہیے۔ اگر بریسٹ میں کوئی گلٹی محسوس ہو رہی ہو یا نپلز کی شکل میں کوئی تبدیلی یا ان سے کوئی مواد بہہ رہا ہو یا بریسٹ میں درد محسوس ہو رہا ہو تو فوراً اسپتال کا رُخ کریں اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھائیں۔
ایسی خواتین جن کی عمر 45 سے 54 برس کے درمیان ہو انہیں سال میں ایک بار اپنی میموگرافی ضرور کروانی چاہیے۔ پاکستان میں ابھی یہ ٹیسٹ مہنگا ہے لیکن آپ کے گھر کی خواتین کی صحت سے زیادہ مہنگا نہیں۔