ہمارے ہاں اچھا لگنا باقاعدہ ایک بری بات ہے۔ ایسا کریں یہ بلاگ پڑھنا روک دیں اور دو منٹ کو ذرا سوچیں کہ ایسا کوئی بھی انسان جسے خوب صورت لگنے کا شوق ہو، وہ آپ کی ڈکشنری میں کیا کہلاتا ہے؟ لیکن یہ شرط خود اپنے لیے نہیں ہے۔ اپنے شوق کو ہم کچھ بھی کہہ کر جسٹیفائے کر لیتے ہیں، دوسروں کی باری ہمیں موت پڑ جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کیا؟ اچھا اگر کسی چھ سال کی بچی نے لال لپ سٹک لگائی ہو تو آپ کا دماغ کہاں جاتا ہے؟ ’یار، ابھی عمر نہیں تھی اس کی، کیا الٹے کام کر رہی ہے؟‘ اگر یہی لپ سٹک کسی 65 سالہ خاتون نے لگائی ہو تو ہم بوڑھی گھوڑی لال لگام کا طعنہ دیتے ہوئے منٹ نہیں لگاتے۔ اگر کوئی پانچ سال کا بچہ ضد کرے کہ اس نے بچوں والے اوٹ پٹانگ کپڑے نہیں پہننے اور باپ جیسی جینز کے ساتھ سفید قمیص پہننی ہے تو اسے کہا جائے گا کہ وقت سے پہلے بڑوں والے کام نہ کرو اور اگر 65 برس کا آدمی تھوڑا تیار ہو کے نکل آئے گا تو اس کے بارے میں بھی یہی سوچیں گے کہ بابا جی اللہ اللہ کیوں نہیں کرتے، کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔
چلیں مان لیا اوپر والا رویہ ٹھیک ہے۔ ان سب کی عمر نہیں ہے وہ سب کرنے کی۔ اب اگر 20 سال کی ایک لڑکی لال لپ سٹک اور شوخ رنگ کپڑے پہنے تو اس کے بارے میں قریبی سہیلی سے فورا کمنٹ آئے گا، حسینہ کہاں چلی؟ کس پہ بجلیاں گراؤ گی؟ اس میں یہ لفظ حسینہ کیا ہے؟ کیا یہ طنز نہیں ہے؟ اس کا تو بھائی ٹائم ہے، وہ نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ ہمیں ٹھنڈے پیٹ کسی کا اچھے لگنا کیوں نہیں برداشت ہوتا؟ آخر ہم تعریف کے معاملے میں اتنے کنجوس کیوں ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح لڑکا اگر بالوں میں جل لگائے، ڈرائر سے انہیں سیٹ کرے، منہ پہ کریم لگائے، فیشن کے کپڑے پہنے تو اس کے لیے بھی یاروں کا پہلا کمنٹ یہی آتا ہے، ہاں بھئی ہیرو بن کے کدھر جا رہا ہے؟ ابے بچی سے ملنے جا رہا ہے کیا؟ مطلب کوئی بھی شخص ہمارے یہاں اپنی مرضی سے، خود کو اچھا لگنے کے لیے تیار ہو کر کیوں نہیں سکتا؟ ہم کیوں یہ فرض کر چکے ہیں کہ انسان دوسروں کو دکھانے کے لیے خوب صورت لگنا چاہتا ہے؟ آپ خود کو پسند کریں گے، اپنے آپ پر اعتماد ہو گا، تب ہی کسی دوسرے سے بات کرنے کے قابل ہوں گے۔ جب ہر تیار مرد، عورت، لڑکی، لڑکے کو اس نظر سے دیکھا جائے گا جیسے وہ کچھ غلط کر رہے ہیں تو کون کب تک اچھا لگنے کی خواہش رکھ سکتا ہے؟
ہمارے یہاں اگر 16 سال کی لڑکی نے موٹا چشمہ لگا رکھا ہے، بال کس کے باندھے ہوئے ہیں، ٹاپس برائے نام ہیں، چوڑیاں نہیں پہنیں، شمیص کے ساتھ گھٹنوں تک کی موٹی قمیص اور شلوار پہنی ہوئی ہے تو وہ نیک اور تمیز دار ہے۔ اسی طرح میٹرک کا بچہ اگر تیل لگا کے سائیڈ کی مانگ نکالے ہوئے ہے، منہ پہ اگی آدھی داڑھی، آدھی مونچھیں شیو نہیں کر رہا، ڈھیلی سی پتلون پہنے ہے تو وہ یقینا لائق فائق اور ذہین سمجھا جائے گا۔ ماں باپ حسرت میں مریں گے کہ کاش ہمارا بچہ یا بچی ایسے ہی سیدھے ہوں، ذہین ہوں، فیشن ایبل نہ ہوں، اخروٹ ہوں بالکل۔۔۔
لیکن
یاد رکھیں کہ ایسے بچوں میں خود سے پیار کرنے کا جذبہ جو آپ بخوبی مار چکے ہیں، وہی آگے جا کر صحت کے مسئلوں کی وجہ بنے گا اور دوسرے ذاتی ایشوز جیسے اوکھے مزاج کا ہونا یا کچھ بھی ٹیڑھا پن، وہ سب یہیں سے شروع ہو گا۔ ایسا کیوں ہو گا، ابھی دیکھ لیتے ہیں۔
جب بچے کو پہننا اوڑھنا پسند نہیں ہو گا، یا پابندی ہو گی، یا فیشن سے منع کیا جائے گا، یا اچھی فٹنگ والے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہو گی تو اسے کیا فکر ہو گی کہ اس کی کمر چھبیس انچ کی ہے یا چھتیس انچ کی؟ لڑکا ہو لڑکی، دونوں کی سکن ٹائیٹ جینز کو آج تک مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، کون سے سیارے پہ رہتے ہیں یار ہم؟ دیکھیے کسی چیز کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب اس کی سجاوٹ کا اہتمام موجود ہو، اسے خوبصورتی سے دکھایا جا سکے، اس پر اترایا جا سکے، اسے محسوس کیا جا سکے۔ ہم نے تو زندگی کے سارے راستے ویسے ہی خود پر بند کیے ہوئے ہیں۔ آپ ساحل سمندر پہ جا کر بھلے مختصر لباس نہ پہنیں کہ وہ ہمارا کلچر نہیں، اقدار نہیں ہے لیکن گھر میں، کالج میں، سکول میں، قریبی دوستوں میں، بچے کو ایسے کپڑے پہننے پر حوصلہ افزائی تو کریں جو آگے جا کر اسے اپنے جسم کی فٹنس پر مجبور رکھیں۔
ہم لوگ بچپن سے اپنے بچوں کو جھبلوں کی عادت ڈالتے ہیں۔ لڑکا ہے یا لڑکی ہے، شدید ڈھیلے کپڑے پہنا کر مہمانوں کے سامنے فخریہ طور سے پیش کرتے ہیں اور سرٹیفیکیٹ لیتے ہیں کہ بچہ ٹھیک سے پل رہا ہے۔ وہی بچہ بڑا ہو کر کبھی تمیز دار لباس نہیں پہن سکتا۔ شیروانی یقین کریں اسی وجہ سے ہم نے ترک کر دی کہ ہمارے جسم ویسے رہ ہی نہیں گئے جن پر وہ سوٹ کرتی۔ واسکٹ کے بٹن بند نہیں ہوتے تو ہم شال اوڑھتے ہیں۔ کوٹ میں ہمارے کندھے درد کرتے ہیں، ٹائی میں گلا گھٹتا ہے، شرٹ کے کالر گالوں پہ کاٹتے ہیں، بندہ بنیان اور شلوار جوگا رہ جاتا ہے۔ تحقیق یہ وہی کپڑے ہیں جو اسی فیصد لوگ گھر میں پہن کے بیٹھے ہوتے ہیں۔
بچیاں شادی کے بعد اسی ڈھیلے شلوار قمیص میں ماں بنتی ہیں اور ناپ میں مزید چھ انچ دونوں سائیڈوں سے کھلا رکھوا کے ہر سال مزید پھیلتی جاتی ہیں۔ موٹا ہونا الگ بات ہے، خود سے لاپروا ہونا بالکل الگ ہے۔ اس قابل تو رکھیں کہ وہی بچہ بڑا ہو کر خود پر کانفیڈنس رکھ سکے اور پہننے اوڑھنے میں اچھا محسوس کرے۔ ہمارے یہاں تو بچہ اگر جدید ٹائپ کے کپڑے پہننے کی فرمائش کر دے تو ہمیں لگتا ہے یا ہماری تربیت کا قصور ہے یا کیبل ٹی وی کا۔
اب ہوتا کیا ہے۔ ہماری ہر اگلی نسل میں گنتی کے وہ لڑکے لڑکیاں جو خوبصورت لگنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، جو اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں، جنہیں اپنا وجود خوب صورت لگتا ہے، وہ بزرگوں سے اسی بات پر الجھ الجھ کے مر جاتے ہیں کہ ہمیں کم از کم مرضی کا لباس تو پہننے دیں۔ ان پر آوارہ اور بدچلن ہونے کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ہم تو ایسے نہیں تھے۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں، غلطی ان کی نہیں تھی، ان کے اماں ابا نے انہیں ایسا رکھا تھا، کوئی خواہش تھی بھی تو ایسے گھوٹ کے ماری تھی کہ اب وہ ہر فیشن ایبل نوجوان کو پھانسی چڑھانے کے قابل سمجھتے ہیں۔ تو یہ چکر اس برے طریقے سے چلتا ہے کہ پورے پورے خاندان تھانوں کے تھان چڑھائے گھومتے نظر آتے ہیں۔
سامنے کی بات ہے۔ شلوار قمیص ہی پہننی ہے تو شلوار کو بھول کر جینز چڑھانے کے فائدے بے شمار ہیں۔ جس دن بٹن بند نہیں ہو گا اسی دن سمجھ آ جائے گی کہ استاد وجود ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ صرف پیٹ نہیں، رانیں، پنڈلیاں سب کچھ خود مجبور ہوں گے کہ یا انہیں کم کیا جائے یا جینز نئی لی جائے۔ شلوار تو بابا پندرہ سال میں ایک بار بھی احساس نہیں دلائے گی کہ کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے! اسی طرح قمیص اگر اپنے ناپ کی ہو تو وہ بھی زیادہ پھیلنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ بات گھوم پھر کے ٹھیک ناپ والے کپڑوں پہ آ کر دم توڑ جاتی ہے۔ وہ ہوں گے تو ہر ہفتے کا بھی اندازہ رہے گا کہ وزن کہاں جا رہا ہے۔
ہالی وڈ کی فلمیں ہوں یا ویب سائٹس پہ نظر آنے والی غیر ملکی عورتیں، سب ہمارے یہاں بڑے ذوق و شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان کے ہیرو ہوں یا ہیروئین، وہ کم بخت ستر سال کی عمر میں بھی فٹ نظر آتے ہیں اور ہماری سترہ سال میں ہوا نکل جاتی ہے۔ کیوں؟ غور کریں، سوچیں۔ ان کے پاس ساری زندگی ایسے مواقع ہوتے ہیں جب انہیں اپنا آپ دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ سوشل لائف، کلب، ڈانس، ریس، دفتر، ورزش، سڑک پر پیدل چلنا، ہر تہوار کو سیلیبریٹ کرنا اور مرضی کے کپڑوں میں کرنا۔ ہمارے پاس ان سب میں سے لے دے کے پیدل چلنا رہ جاتا ہے، وہ بھی صرف وہی بے چارہ چلتا ہے جو مجبور ہو۔ ورنہ کبھی کوئی صاحب حیثیت نارمل آدمی دیکھا ہے آپ نے جسے کوئی بیماری نہ ہو اور وہ پھر بھی موٹر سائیکل، گاڑی پاس رکھتے ہوئے پیدل چلنے کو ترجیح دیتا ہو؟ وہ لوگ جانتے ہیں کہ جب تک زندہ رہنا ہے، خود کو فٹ رکھنا ہے۔ ہم لوگ جانتے ہیں کہ جب تک زندہ رہنا ہے، خود کو خالی پیٹ نہیں رکھنا۔
باقی سو باتوں کی ایک بات، فقیر نے آج تک کم کھانے سے مرتے کسی کو نہیں دیکھا، زیادہ کھانا، پیٹ بھر کے کھانا قسم بخدا ہر طرح کی تکلیف لے کر آتا ہے۔
کوشش کریں اگلی نسل کو ڈھنگ کے کپڑے پہننا سکھا دیں، ان کو سمجھائیں کہ یہ جسم وہ خول ہے جس نے ساری عمر تم پہ چڑھے رہنا ہے، انہیں اس کا احترام، اس کی قدر کرنا سکھائیں، انہیں سمجھائیں کہ اس کا خیال رکھو گے تو موج ہی موج ہے۔ باقی رب سوہنے کی مرضی۔ آباد رہیں!