ملتان کے نواحی علاقے بلال چوک کی نسرین 12 سال سے گلاب کے پھول چن رہی ہیں۔ فجر کی اذان کے ساتھ اٹھتی ہیں۔ اپنے بچوں کا ناشتہ بنا کر، انہیں سکول کے لیے تیار کرنے کے بعد گلاب کے کھیت کی طرف پیدل نکل پڑتی ہیں۔
ہورٹی کلچر کے محکمے کے کھیت میں وہ روزانہ تین چار گھنٹوں تک گلاب توڑ کر جمع کرتی ہیں۔
ان کے ساتھ دس سال سے گلاب چننے والی صغریٰ ضعیف العمر ہیں۔ پوتے پوتیوں والی ہیں اور شوگر کی مریضہ ہیں۔
اس ایک کھیت میں روزانہ چنائی کرنے والی ان خواتین کی ذاتی زندگیوں کی الگ الگ کہانیاں ہیں، لیکن کھلے ہوئے گلابوں کے بیچ سب کی ایک کہانی ہے۔
وہ کہانی یہ ہے کہ گلاب کا کانٹا چبھتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تکلیف اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب محنت کے عوض محض 100 روپے ملتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صغریٰ کہتی ہیں کہ ’کانٹا چبھتا ہے تو لگتا ہے کہ جان نکل گئی۔ خارش سے خون رِسنے لگتا ہے۔ دوا لینے جاؤ تو ڈاکٹر دو خوراکوں کے 200 روپے لے لیتے ہیں۔‘
ذیابیطیس میں مبتلا صغریٰ کا زخم جلدی نہیں بھرتا۔ ملتان کے گرم موسم میں بھی نسرین اون کے دستانے پہن کر گلاب چنتی ہیں تاکہ کانٹوں سے بچا جا سکے۔
ہورٹی کلچر محکمے کے ریسرچ آفیسر افتخار احمد کے مطابق: ’گلاب کے پھول کے کانٹے زہریلے ہوتے ہیں۔ کھیت میں سپرے ہو تو تین چار دن چنائی نہیں کی جانی چاہیے، ورنہ عورتوں کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ان کا زچگی کا عمل متاثر ہوتا ہے یا تاخیر کا شکار ہوتا ہے۔ انہیں الرجی بھی ہو سکتی ہے۔‘
لیکن نسرین اور صغریٰ پاکستان کی ان لاکھوں مزدور خواتین میں سے ہیں جن کے لیے کام کے دوران احتیاط، آگہی، حفاظتی تدابیر اور اجرت کا کوئی باضابطہ نظام وجود نہیں رکھتا۔ ان کی غربت انہیں ہر حال میں کام کرنے اور سالہا سال اپنی صحت اور زندگیاں داؤ پر لگائے رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
گلاب چننے والیوں کو سورج کی تپش شروع ہونے سے پہلے کھیت میں پودوں پر کھلے ہوئے تمام پھول جمع کرنے ہوتے ہیں تاکہ وہ مرجھانے سے پہلے منڈی پہنچ جائیں۔
تازہ گلاب منڈی میں پہنچنے کے بعد گجرے، گلدستے، پتیاں اور عرق بنانے والوں کے منافع بخش کاروبار شروع ہو جاتے ہیں۔
پسینے میں شرابور گلاب چننے والیاں اپنے اپنے سو روپے تھام کر سورج کی تپش میں پیدل ہی گھروں کا رخ کرتی ہیں جہاں ان کی تنگ دستی کی کہانیوں میں نئے موڑ نہیں آتے۔