اس دنیا میں مرد اور عورت کے علاوہ ایک تیسری جنس بھی پیدا کی گئی ہے جو نہ تو مرد ہے اور نہ عورت۔ انہیں خواجہ سرا کہا جاتا ہے اور ان کو بھی باقی انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور تو اور ان کے والدین تک ان کو اپنے ساتھ رکھنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ان کے بارے میں معلوم ہوتے ہی ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔
یہ لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کو اگر کوئی اپناتا ہے تو ان کی اپنی کمیونٹی کے خواجہ سرا ہوتے ہیں جو ان کا سہارا بنتے ہیں اور ان کو پالتے ہیں۔ یہ انتہائی مجبور طبقہ ہے۔
خواجہ سرا اکثر ناچ گانے اور جنسی بدفعلی جیسی برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے۔ وہ اگر کسی کے گھر میں کام بھی کرتے ہیں تو مالکان ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اکثر ان کو کام پر رکھا ہی نہیں جاتا۔ یہ تمام تر سہولیات سے محروم لوگ ہیں۔
پاکستان کے ہر شہر میں خواجہ سرا طبقہ ناچ گانے اور دیگر برائیوں میں ملوث نظر آتا ہے۔ اگر قبائلی علاقوں کا ذکر کیا جائے تو وہاں بھی خواجہ سرا اسی پیشے سے منسلک نظر آتے ہیں، لیکن ضلع وزیرستان میں آپ لوگوں کو کوئی بھی خواجہ سرا نظر نہیں آئیں گے۔ نہ روڈ پر اور نہ ہی کسی شادی بیا کی محفلوں میں ناچتے گاتے یا روڈوں پر بھیک مانگتے پر۔ کیونکہ یہاں کے لوگ خواجہ سرا اولاد کو بھی اپنی دوسری اولاد کی طرح تمام حقوق فراہم کرتے ہیں اور کسی پر بھی یہ بات واضح نہیں کرتے کہ ان کے ہاں کوئی خواجہ سرا موجود ہے۔ وہ معاشرے میں اس بات کو ظاہر کرنا اپنی بےعزتی سمجھتے ہیں اور اس موضوع کو لے کر وہ بات بھی نہیں کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیرستان میں ان خواجہ سراؤں کو بہت ہی عزت کے ساتھ بیٹا یا بیٹی کی شکل میں رکھا جاتا ہے یا پھر ان کو ’پاگل‘ کا نام دے دیا جاتا ہے تاکہ کوئی ناگوار حرکت کرنے پر لوگ ان کو ذہنی مریض سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ ان کو گھروں سے باہر لوگوں کے طعنے یا گالیاں سننے، دربدر کی ٹھوکریں کھانے، بھیک مانگنے اور لوگوں کا دل بہلانے کا ذریعہ نہیں بننے دیا جاتا۔
افسوس کہ دنیا میں وزیرستان دہشت گردی کے لیے بدنام ہے کیونکہ اصل میں تو یہاں کے لوگوں میں حب الوطنی، انسانی ہمدردی، مہمان نوازی اور بے شمار خوبیاں ہیں جو شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملیں۔
پاکستان کے دیگر علاقوں میں اگر کہیں پر بھی خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے تو اسے گلی ویرانوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن وزیرستان کے لوگ خواجہ سراؤں کو بھی تمام حقوق فراہم کرتے ہیں۔
حالیہ مردم شماری میں بھی وزیرستان سے تین خواجہ سرا رجسٹر ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب ان کے دلوں میں اس خوف میں کمی آئی ہے کہ لوگ ان کو قبول نہیں کریں گے۔ وزیرستان کے خواجہ سراؤں کی کہانی دیگر علاقوں کے خواجہ سراؤں سے یکسر مختلف ہے اور پیشہ وار خواجہ سراؤں میں بھی کوئی وزیرستانی خواجہ سرا نظر نہیں آئے گا۔
وزیرستان کی سب سے اچھے پہلو پر روشنی ڈالنا میرا فرض بنتا ہے۔ میں فخر کرتی ہوں کہ میں اس زمین کی بیٹی ہوں جہاں ایک خواجہ سرا کو بھی گھر کی چار دیواری میں دیگر بچوں کی طرح عزت دی جاتی ہے۔ ان کو نام دیا جاتا ہے اور خواجہ سراؤں کو بازاروں کی زینت نہیں بننے دیا جاتا۔ ان کو عزت دی جانی چاہیے کیونکہ یہ خود پیدا نہیں ہوتے، ان کو جنم دینے والے بھی ایک عورت اور ایک مرد ہی ہوتے ہیں۔ یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ انسان ہیں تو پھر کیوں ہم ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کو دنیا کے بازار میں تماشہ بناتے ہیں؟
اگر ان کو وہ عزت مقام اور مرتبہ دیا جائے جو ان کا حق ہے تو میں یہ دعوے کے ساتھ کہتی ہوں کہ یہ ہمارے ملک کی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
نایاب علی (خواجہ سرا) کا ایک شعر ہے
میں مورت ہوں سو صورت ہوں
میں کتنی حسین بدصورت ہوں
میں اپنی ماں کی چاہت ہوں میں اپنے باپ کی تہمت ہوں