عرصہ 20 سال پیچھے کی بات ہے۔ مَیں بصیرپور میں تھا۔ نیسلے ملک پیک کی طرف سے بطور مِلک کولیکشن سپروائزر کام کرتا تھا۔ میرا کام اُن زمین داروں سے تعلقات بنانا تھا، جن کے پاس ہزاروں ایکٹر رقبہ ہو، گائیں بھینسیں زیادہ ہوں اور دودھ کی فراوانی ہو۔
اِس سلسلے میں وہاں کے تمام بڑے زمینداروں سے رسم و راہ ہو گئی۔ مَیں اُن سے مقامی ریٹ سے قدرے زیادہ پر کمپنی کے لیے دودھ کا سودا کرتا تھا اور کمپنی کی گاڑی دودھ آٹھا کر لے جاتی تھی۔ یہ زمین دار طرح طرح کے شغل رکھتے تھے، کوئی کتوں کا شوقین تھا، کوئی بٹیر پالتا تھا، کسی نے ڈیرے پر دو چار پاگل باندھے ہوتے تھے اور اُن سے گالیاں کھاتا تھا۔ کوئی رسہ گیری اور چوری کراتا تھا، کوئی زمیندار دوسروں کی زمینوں پر قبضے کرنے کا شوق رکھتا تھا۔
اُنھی سورماؤں میں سے ایک ملک شرافت خاں تھا۔ اِس کے گاؤں کا نام محمد پورہ تھا۔ یہ پورا گاوں اُس کی ذاتی جاگیر میں تھا اور کافی کھلا تھا۔ اُس نے پتہ نہیں کہاں سے دو بھیڑیے کے بچے لا کر رکھ لیے۔ بھیڑیے کے بچے دیکھنے میں گیدڑ لگتے تھے۔ اپنے ڈیرے میں کھڑے نیم کے درخت تلے باندھ رکھا تھا۔ اُن کے سامنے روز کسی زندہ مرغی کو کھڑی کر دیتا، بھیڑیے اُسے نوچتے اور کھاتے، شرافت خاں سامنے بیٹھ کر مرغی کی چیر پھاڑ کا تماشا دیکھتا۔ یہ ایک بہت عجیب اور ڈرا دینے والا عمل تھا، زندہ مرغی کی چیخ و پکار کوئی سُننے والا نہ ہوتا تھا۔
ایک دن مَیں نے پوچھا: ’ملک صاحب آپ نے اِن بھیڑیے کے بچوں کو کیا کرنا ہے، یہ تو بہت خطرناک جانور ہیں۔‘
کہنے لگا: ’بھائی یہ بھیڑیے اصل میں بہت کام کی چیزیں ہوتی ہیں، سُدھا لیا جائے تو لڑائی میں اپنے وزن کے برابر تین لڑاکا کتوں پر بھاری ہوتا ہے، آپ کو تو پتہ ہے، آئے روز ارد گرد کے زمینداروں کے کتوں سے مقابلے کرنے پڑتے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک کتے سالے میدان میں اتارتے ہیں۔ کتے کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُس پر کئی ملازم دیکھ بھال کے لیے کھپانے پڑتے ہیں، دودھ اور گوشت کے ٹوکرے کھاتے پیتے ہیں اور نتیجہ کچھ خاص نہیں نکلتا۔ میں نے سوچا کیوں نہ دو ایک بھیڑیے پال کر سب کے کتے ٹھکانے لگا دوں،علاقے میں نام ہو جائے گا۔‘
مَیں نے اُس کی بات سُن کر تعجب کا اظہار نہ کیا کہ اُن کے شوق اور دانش کی کوئی تُک نہیں ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ وقت نکلتا گیا، اب ہفتے بعد اُن کے سامنے مرغی کی بجائے بکری یا بھیڑ کا بچہ کر دیا جاتا جنھیں وہ اپنے تیز دانتوں اور نوکیلے ناخنوں سے دو چار منٹ میں ہی اُدھیڑ کر چادر کی طرح پھیلا دیتے۔ اُس کے بعد جو گوشت بچتا اُسے سنبھال کر اگلے دو تین دن اُس کو دیا جاتا۔ مَیں یہ سب ماجرا دیکھتا تھا اور چُپ رہتا تھا، مجھے صرف اپنے دودھ سے غرض تھی جس کے سبب میری نوکری بچی ہوئی تھی۔ اس لیے خوامخواہ پرائے دھندے میں ٹانگ نہ اڑاتا تھا اور معصوم جانوروں کی آہ سے ڈرتا تھا۔ اب ڈیڑھ سال اُن کو ہو گیا تھا، دانت پورے نکل آئے تھے۔ گوشت کھا کھا کر اور چیر پھاڑ کرکے نہایت ظالم ہو چکے تھے۔ میں جب بھی وہاں جاتا اُنھیں دیکھتا، اُن کی آنکھوں کا وحشی پن مجھے ڈراتا تھا۔ ایک دو لوگ اُنھیں کبھی کتوں سے، کبھی کُتیوں سے لڑائی کی مشق کرا رہے ہوتے، کھانے کو اُنھیں عمدہ گوشت، دودھ، دہی اور پتہ نہیں کیا کیا دیا جاتا۔ روز لمبی رسی باندھ کے دوڑایا جاتا۔ اُن کے پنجے اور ناخن تیز کیے جاتے۔
یوں چھ ماہ اور گزر گئے۔ ملک شرافت خاں بھیڑیوں کو جوان اور طاقت ور ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا۔ بھیڑیے اتنی جلدی بڑے بڑے کتوں کو پھاڑنے لگے کہ الامان اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کُتے اُنھیں دیکھتے ہی سہم جاتے تھے۔ شرافت خان نے اُن کی حفاظت کے لیے بھی بہت سے بند باندھے ہوئے تھے۔ ایک پنجرہ لوہے کی سخت تاروں سے تیار کر کے اُس میں اُنھیں کھلا چھوڑ دیا تھا اور پنجرے کو لاک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ کافی دنوں بعد میں شرافت خاں کے ڈیرے پر پہنچا تووہاں سوگ کا ماتم بچھا تھا۔ ڈیرے پر موجود ہرآدمی غمزدہ لگ رہا تھا۔ شرافت خاں وہاں موجود نہیں تھا۔
میں نے اِس تمام سوگوار فضا کا سبب پوچھا تو ایک آدمی نے بتایا: ’علی اکبر صاحب، بات یہ ہے کہ ملک صاحب کو بس یوں سمجھ لیں اللہ کی مار پڑی ہے۔ بہت سے معصوم جانوروں کا ناحق خون اُن کی گردن پر چڑھ گیا تھا۔‘
مَیں گھبرا گیا، خدا نخواستہ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں یا قتل ہو لیے۔ میری بے چینی بڑھ گئی، پوچھا: ’خیر تو ہے ملک صاحب کو کیا ہو گیا؟‘ مجھے دراصل ملک صاحب کی نسبت اپنے دودھ کی فکر زیادہ تھی کہ وہ نہ بند ہو جائے۔
وہ بولا: ’ملک شرافت خاں جن بھیڑیوں کو اپنے پالتو کتے بنا کر پال رہے تھے، وہ اصلی اورجینوئن بھیڑیے نکلے ہیں۔ ہوا یہ کہ ملک صاحب نے پچھلے ایک دن سے اپنے بھیڑیوں کو بھوکا رکھا ہوا تھا۔ چک دارے والے کے نواز حیات خاں کے ایک بڑے فائٹر سے اُن کا مقابلہ بندھا تھا۔ درمیان میں ایک لاکھ روپے کی شرط تھی اور ملک صاحب چاہتے تھے کہ اُن کا بھیڑیا مخالف کتے کو اپنی خوراک سمجھ کر حملہ کرے اور اُسے چیر پھاڑ کے رکھ دے۔ کل رات کی بات ہے اللہ جانے کسی نوکر سے کوتاہی ہوئی یا کسی فرشتے نے پنجرے کے دروازے کا تالا کھول دیا۔ یا ملک نواز حیات کی شرارت تھی کہ اُس نے بندہ بھیج کر یہ حرکت کروائی، کسی بھی بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ دونوں بھیڑیے زنجیر تڑوا کر بکریوں کے باڑے میں گھس گئے اوردو بکریاں پھاڑ دیں۔ عین اُسی وقت کہیں ملک شرافت خاں کی والدہ تہجد نماز کے لیے اُٹھی تھی، بکریوں کی آواز سُن کر باڑے کی طرف چلی گئی۔ بھیڑیوں نے بکریوں کو تو وہیں چھوڑا اور اماں صالحہ پر حملہ کر دیا۔
’بچاری اماں کو کیا خبر تھی یہ کیا بلائیں ہیں، وہ تو اُنہیں کُتے سمجھ کر چھڑی سے مارنے نکلی تھی۔ بھیڑیوں نے اُنہیں اپنے ناخنوں اور دانتوں پر رکھ لیا۔ پورے باڑے میں کبھی ایک طرف کھینچتے ہوئے نکل جاتے تھے اور کبھی دوسری طرف، رات اُن کی چیخیں بہت سنائی دیں لیکن جب تک ملک شرافت خاں اور دوسرے لوگوں کو خبر ہوئی اماں صالحہ بچاری بکھر چکی تھی، کان کہیں پڑے تھے، انتڑیاں کہیں تھیں اور کھال کہیں اور تھی۔ ڈرتا ہوا کوئی باڑے میں اِس وقت داخل نہیں ہو رہا تھا۔ ہلکا ہلکا اندھیرا بھی تھا۔ آخر رائفل لائی گئی۔ نشانے باندھ باندھ کر مارے گئے اور بھیڑیوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ باڑے میں بکریوں کی بہتات بھی تھی۔ بالآخر ہوا یہ کہ وہ دونوں بھیڑیے بھاگ بھی گئے مگر اماں صالحہ کے پیٹ کی ساری انٹریاں باہر نکال دیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ملک صاحب اندر اپنی والدہ کی میت پر بیٹھے دھاڑیں مار کر رو رہے ہیں اور باہر ہم بھیڑیوں کے جی کو رو رہے ہیں۔ بس یوں سمجھیں ملک صاحب نے سو پیاز بھی کھائے ہیں اور سو جوتے بھی۔ مَیں نے تو اکبر صاحب، اِس بات سے یہی سیکھا ہے کہ آپ بھیڑیے کو پالیں گے تو اُس کے منہ کو لگا خون اپنی اور دشمنوں کی ماں کے خون میں فرق نہیں کرتا۔ پالتو بھیڑیے کبھی پالتو نہیں رہتے اور یہ بھی نہیں پتہ خاص بھیڑیے کب عام بھیڑیے بن جائیں۔‘