ٹیکنالوجی کا کردار ہماری زندگیوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو لوگوں کے باہمی رابطے سے پیدا ہونے والے متعدد مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
ایک مسئلہ جس کا فیس بک کو تقریباً روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہے انتقامی پورن، یعنی کسی سابق جنسی پارٹنر کی جانب سے کسی کو ہراساں کرنے، نقصان پہنچانے، تکلیف دینے یا شرمندہ کرنے کے لیے رضامندی کے بغیر ان کی انتہائی ذاتی تصاویر یا ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پھیلا دینا۔
مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ فیس بک نے 25 لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم بھی ملازمت پر رکھی ہے، جن کا کام اس ویب سائٹ پر شیئر ہونے والے انتقامی پورن سے نمٹنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے اس تجربے میں شریک افراد نے بتایا کہ ان کا مقصد نہ صرف کسی بھی صارف کی ذاتی تصاویر یا ویڈیوز کو رپورٹ کیے جانے کے بعد فوری طور پر ہٹانا ہے بلکہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے اَپ لوڈ ہونے کے ساتھ ہی تصاویر کو پہنچاننا بھی ہے (چونکہ صارف ان تصاویر کو پہلے ہی جمع کروا چکے ہوتے ہیں جن کے بارے میں انہیں خطرہ ہوتا ہے۔)
اس مقصد کے لیے فیس بک ایک ایسا ٹول فراہم کرتا ہے، جس کی مدد سے لوگ اپنی ایسی ذاتی تصاویر جن کے لیک ہونے کا اندیشہ ہو، انہیں پہلے سے ہی جمع کروا سکتے ہیں۔
اس معاملے کو شروع میں بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن اس کی مدد سے وہ لوگ جنہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلائی جا سکتی ہیں، وہ ایسی تصویریں پہلے ہی فیس بک کے پاس جمع کرواسکتے ہیں۔ ان تصویروں کو ڈیجیٹل فنگرپرنٹس میں تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جیسے ہی ان میں سے کوئی بھی تصویر یا ویڈیو کہیں اَپ لوڈ ہو تو فیس بک انہیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے شناخت کرکے فوراً ہٹا سکے۔
فیس بک کے مطابق: جتنی تصاویر رپورٹ ہوں گی (جتنا زیادہ ڈیٹا ان کے پاس جمع ہو گا)، سسٹم کی مصنوعی ذہانت اتنی ہی بڑھے گی۔
فیس بک کے پاس تصاویر جمع کروانے کے بعد کیا ہوگا؟
فیس بک کے مطابق جمع کروائی گئی تصاویر کو اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ ماڈیٹرز ایک جھلک دیکھیں گے تاکہ وہ اندازہ کرسکیں کہ کیا یہ تصاویر واقعی ذاتی نوعیت کی ہیں۔
تصاویر کی نوعیت کا اندازہ لگانے کے بعد انہیں ڈیجیٹل فنگر پرنٹس میں تبدیل کیا جائے گا جو بعد ازاں فیس بک، میسنجر یا انسٹاگرام پر شیئر ہونے والی دیگر تصاویر یا ویڈیوز کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
این بی سی نیوز کے مطابق ڈیجیٹل فنگر پرنٹس میں تبدیل کیے جانے کے سات دن کے اندر فیس بک ان تصاویر کو ڈیلیٹ کردیتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم ’صارفین کی ذاتی تصاویر کا ڈیٹا بیس اپنے پاس محفوظ نہیں رکھتا، جو ہیکنگ کا باعث بن سکے۔‘
این بی سی نیوز کے مطابق اس اقدام پر تنقید کے باوجود فیس بک نے اسے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، پاکستان اور تائیوان کے صارفین تک پھیلا دیا ہے جب کہ فیس بک ترجمان کے مطابق آنے والے مہینوں میں یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے صارفین کو بھی اس ٹول تک رسائی فراہم کردی جائے گی۔
فیس بک کے مطابق اگرچہ یہ عمل کچھ متضاد معلوم ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ لوگ جنہیں انتقامی پورن کا نشانہ بننے کا خدشہ ہو، اپنی تصاویر شیئر نہیں کرنا چاہیں گے، لیکن یہ ممکنہ متاثرین کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اگرچہ فیس بک پر کسی بھی کسی قسم کے مواد کو رپورٹ کرنے کا عمل نہایت آسان ہے، تاہم صارفین کو انسٹاگرام اور مسینجر پر انتقامی پورن کے مسئلوں کو رپورٹ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
© The Independent