پیارے فخر، تم حیران تو ہو گے کہ کس طرح تم سے تعارف ہوا۔ لمبی کہانی مختصر، آج نمازِ فجر کے وقت قبلہ خوشحال خان خٹک سے ملاقات ہوئی، کافی پریشان تھے۔
میں نے پوچھا خیر تو ہے؟ وہی اپنوں کی بےاعتنائی اور غیروں کی بے وفائی کا رونا رونے لگے۔ فرمانے لگے، ایک عرصے سے آہستہ آہستہ پختونوں کی تاریخ مسخ کی جا رہی ہے، جو ہمارے افتخار تھے ان پر ہمیں شرمندہ کیا جا رہا ہے۔ دیکھو پشتون نثرنگار پہلے ہی کم تھے اور تاریخ دان تو نہ ہونے کے برابر۔ آج تک ہماری تاریخ ہمیں غیر سے سننے کو ملتی ہے، وہ بھی فرنگیوں سے۔
یہ تو چھوڑو پہلے تو مذاق اڑایا جاتا تھا، اب تو ہندوستان میں ہمارے ہیروز کو جاہل، بدتہذیب، خونخوار دکھا کر کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی سچے تاریخی واقعات کی فلم ہے۔ یہ سن کر مجھے بھی فکر پڑ گئی۔ یہاں تو انٹرنیٹ کا وجود نہیں اور زیادہ تر معلومات یہاں آنے والے مستقل مہمانوں کی وساطت سے ہی پہنچتی ہیں۔ جنت میں تو پختونوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ شاعر کی بات سچ ثابت ہوئی جو کہتے ہیں کہ پشتو دوزخ کی زبان ہے لیکن میں پشتو کے ساتھ جنت جاؤں گا۔ اب تو لگتا ہے پشتو ہی جنت کی اکثریتی زبان ہے اور باقی قوموں سے ہماری اتنی بات چیت نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں سے سنا ہے کہ بھارت میں پانی پت کے حوالے سے فلم بن رہی ہے۔ میں نے خوشحال خان سے ذکر کیا تو فرمانے لگے۔
زہ پہ بند د اورنگ نہ یم چہ بہ خلاص شم
زہ بند کڑے رحمکار زیڑی بابا یم
(میں اورنگزیب کی قید میں تھوڑی ہوں کہ رہائی نصیب ہو۔ میں تو رحمکار کی قید میں ہوں)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے یہ سن کر پوچھا حضرت ابھی بھی اورنگزیب کی قید کا ذکر۔۔۔ اس کے ڈر سے تو ہم نے ہندوستان سے بھاگے سکھوں تک کو پختونخوا میں پناہ دی تھی، اور کیا یہ رحمکار اس سے زیادہ ظالم ہیں؟
خوشحال خان مسکرائے اور کہا: ’ارے نہیں جناب، رحمکار کاکا صاحب، سید زادے ہیں اور ہمارے روحانی پیشوا ہیں۔‘ میں نے کہا: ’اچھا حضرت کستیرگل کا ذکر ہورہا ہے۔‘ اس نے کہا: ’ہاں! اس خاندان نے بہت سے لکھاری پیدا کیے ہیں جن میں پشتونوں کے جید مورخ بہادر شاہ ظفر کاکاخیل بھی ہیں۔ کاکاخیل کا لفظ سنا ہے تو یاد آیا کچھ برس قبل دہشت گردی کے شکار کئی پشتون صحافیوں سے تمہارا ذکر سنا اور یوں آپ کے ساتھ رابطے کا ذریعہ ڈھونڈھ ہی نکالا۔‘
پیارے فخر، پہلے ایک بات سمجھ لو۔ ہمارے زمانے میں پشتون پٹی ہندوستان اور وسطی ایشیا کے بیچ میں ایک بفرزون تھی۔ کابل اور دلی ہی اصل حریف بن چکے تھے۔ کابل اور وسط ایشیا سے جو بھی لشکر کشی ہوتی رہی بالآخر دہلی جا کر دم لیتی۔ ہندوستان نے جو پہلی اور آخری کوشش کی وہ رنجیت سنگھ کی شکل میں بھرپور فرنگی مدد کے ساتھ، وہ کوشش بھی خیبرکی پہاڑیوں میں پاش پاش ہوئی۔ کابل اور دلی اصل حریف ہیں اور رہیں گے۔
پھر پاکستان بنا تو اب یہ ملک ان دو تہذیبوں کے ٹکراؤ کا شکار ہے۔ خود پاکستان میں بھی ہندوستانی تہذیب کے باسی اسی پالیسی کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ لیکن چونکہ ہندوستان کے پاس وسائل زیادہ ہیں تو بالی وڈ کے ذریعے وہ یہ ثقافتی اور تہذیبی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گو کہ رابندر ناتھ ٹیگور کی شکل میں ’کابلی والا‘ جیسے شاہکار افسانے ہمارے مثبت امیج کے حوالے سے تحریر ہوئے لیکن اس میں بھی ہمارے حوالے سے ان کے تصورات صاف نظر آتے ہیں۔ آج جب ہندو قوم پرست ذہنیت کھل کر سامنے آ گئی تو بالی ووڈ بھی پیچھے نہیں۔
غور سے دیکھو تو ان کے ہر فلم میں چاہے پاکستانی کردار ہی کیوں نہ ہو پشتون کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس کا لب و لہجہ بھی پشتونوں والا رکھا جاتا ہے۔
اس کا آغاز 1960 میں ’چھالیہ‘ نامی فلم سے ہوا ہے جس میں اداکار پران نے پختون چوکیدار کا کردار ادا کیا۔ 1973 میں ’زنجیر‘ فلم میں اسی پران نے ایک پشتون جرائم پیشہ کا کردار ادا کیا ہے۔ 2013 میں ’کابل ایکسپریس‘ نے تو حد کر دی۔ اس میں ہمارے حوالے سے اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو تک کی گئی۔
ابھی 2018 میں ’21 سرفروش‘ کے نام سے تو باقاعدہ ایک ٹی وی سیریز بنائی گئی ہے جس میں 1897 کے اورکزئی مجاہدین کو انتہائی بے ہودہ انداز میں انگریزوں کی غلام سکھ فوج سے آزادی کی جنگ لڑتے دکھایا گیا ہے۔ اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس واقعے پر 2019 میں ’کیسری‘ کے نام سے فلم بنی۔ گویا ان کے غلام ہمارے حریت پسندوں سے بر تر ہیں۔
2018 میں علاء الدین خلجی کو جس انداز میں پیش کیا گیا وہ تو ناقابلِ برداشت ہے۔ پشتونوں کے حقیقی ہیرو کو اپنے ایک افسانوی کردار سے پلید کیا گیا۔ اور اب حالیہ آنے والے ساتھی نے کچھ تفصیل بتا کر کہا کہ اب میری باری آئی ہے۔ میری جدوجہد، جرات اور کردار کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جس طرح آج بابری مسجد کو مٹایا گیا، یہی انتہا پسند ذہنیت اُس وقت زوروں پر تھی اور علمائے کرام نے مجھے طلب کیا۔
اگر مجھے ہندوستان کا راج عزیز تھا تو میں واپس افغانستان کیوں جاتا رہا؟ سچ تو یہ ہے کہ میرا دل کبھی بھی ہندوستان میں نہیں لگا۔ میں نے تو یہاں تک کہا تھا۔
میں دہلی کا تخت بھول جاتا ہوں
جب اپنے پختونخوا کے پہاڑ یاد آتے ہیں
ہم اس وقت اس خطے کی سپر پاورتھے۔ مجھے بتایا گیا کہ ہمارے رہن سہن، ملبوسات، رکھ رکھاؤ، ادب و آداب، طرزکلام کو اس وقت کی محکوم، راجواڑوں میں بٹی، طبقاتی نظام کے شکار ایک پسماندہ قوم کے مقابلے میں حقیر دکھایا جا رہا ہے۔
پیارے فخر، خود فرنگی ریکارڈ کے مطابق پانی پت کی لڑائی کے دوران میری عمر 39 سال کے لگ بھگ تھی جبکہ میں صرف پچاس برس جیا۔ لیکن فلم میں میرا کردارایک 60 سالہ شخص کر رہا ہے۔ 1761 میں ہونے والی یہ لڑائی اُس وقت لڑی گئی جب مغل زوال پذیر تھے اور مرہٹے سر اٹھانے لگے تھے۔ آج جو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے جب کہ سیکولرازم کا پرچم بھی اٹھایا ہوا ہے، سوچو، اٹھارویں صدی میں یہ لوگ کیا کر رہے ہوں گے۔
میں نے سنا ہے فلم میں میری فوج ایک لاکھ بتائی گئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک لاکھ سے زائد تو یہ لوگ تھے ایک لاکھ تو صرف ان کے یاتری تھے۔ میری فوج تو ان سے کہیں چھوٹی تھی۔ تقریباً آدھی، صرف 40 ہزار میرے فوجی تھے۔ ان کی فوج میں تو لڑنے کی سکت تک نہیں تھی۔ ان کا تجربہ چھاپہ مار، لوٹ مار تک کا تھا۔ 30 ہزار سے زائد کو تو ہم نے زندہ گرفتار کیا اور 40 ہزار سے زائد ان کے فوجی مارے گئے تھے۔ دس بیس ہزار بھاگ گئے تھے۔ جہاں تک خواتین اور بچوں کے ساتھ ہمارا سلوک تھا، پشتون معاشرے میں تو آج بھی عورت اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا بے غیرتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پھر اس وقت کیا تم ہم سے یہ توقع رکھ بھی سکتے ہو؟
پیارے فخر، یہ فلم تو میں نے نہیں دیکھی لیکن کہتے ہیں قوم کی تاریخ ہوتی ہے اور مورخ کا مستقبل اور یہی مورخین اپنے مستقبل کے لیے قوموں کی تاریخ کا خود تعین کرتے ہیں۔ یہ پیغام ہندوستان کے فلم سازوں اور میری قوم تک ضرور پہنچانا ہے کہ ہمیں کل بھی اپنے مخالفین اور ان کی طاقت کا اندازہ تھا اور آج بھی ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے خود کو اور اپنی قوم کو دھوکہ دینا چھوڑ دیں۔ آپ اپنے درسی کتب سے تاریخ کی کتابوں سے، چوراہوں سے ہمارے نام تو مٹا سکتے ہو لیکن اس سے نسلیں نہیں بدلتیں۔ تاریخ کا دھارا جیسے تھا ویسے ہی چلتا رہے گا۔ ایک وقت آئے گا جب ہمارے بھی مؤرخ ہوں گے، ہمارے بھی تہذیب کے رکھوالے جنم لیں گے۔
یہاں خوشحال بابا، شیر شاہ بابا، عمرا خان آف جندول، ملا پاوندہ سمیت بے شمار ہیروز تمہارے ذریعے اپنی قوم سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں لیکن نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ تمہیں معلوم تو ہے کہ ہماری عبادت بھی ہماری عادت ہے۔ اب اجازت دو۔
تمہارا فخر، احمد شاہ ابدالی، بابائے افغانستان