تاریخ کی بیشتر پرانی کتابوں میں پشتونوں کو اکثر جارح، تشدد پسند اور ظالم قوم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کبھی انہیں جہادی، مجاہد اور جنگی ہیرو کے القاب سے نوازا گیا تو کبھی انہیں شدت پسند اور دہشت گرد کہا گیا۔
اس نظریے کو مزید تقویت نائن الیون کے بعد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے دوران ملی جب افغانستان پر حملہ کرکے وہاں طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد افغانستان اور پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں ایک طویل مزاحمت کا آغاز ہوا۔
لیکن اصل حقائق ہیں کیا، کیا پشتون واقعی بندوق اور جنگ کو پسند کرتے ہیں یا یہ صرف ایک مفروضہ ہے؟ یا اس موضوع پر کبھی کسی نے تحقیق کی نظر سے قلم اٹھانے کی زحمت نہیں کی یا حالات کچھ ایسے پیدا ہوتے رہے کہ پشتون نہ چاہتے ہوئے بھی بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے؟
برطانیہ کے شہر آکسفورڈ میں کئی برس سے مقیم پاکستانی سکالر اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک نے اپنی نئی کتاب ’پشتون آئڈنٹیٹی اینڈ جیو پالیٹکس ان ساؤتھ ویسٹ ایشیا، پاکستان اینڈ افغانستان سنس نائن الیون‘ میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس موضوع پر مزید تحقیق کی راہیں کھولی ہیں۔
286صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اس بات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ سب سے پہلے پختونوں کے لیے جارح، متشدد اور ظالم جیسے الفاظ کا استعمال کب شروع ہوا۔
انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں ان پرانی کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو برطانوی راج میں انگریز افسران یا سیاحوں نے لکھیں اور جن میں پشتونوں کو مختلف قسم کے القاب سے پکارا گیا۔
ڈاکٹر افتخار ملک نے، جو خود بھی تاریخ کے پروفیسر ہیں، تاریخی حوالوں سے ان کتابوں پر کئی سوالات اٹھائے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انگریز مصنفین نے کبھی پشتونوں کی معاشرت، رہن سہن، تاریخ اور خطے کا مطالعہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے انھیں بغیر تحقیق کے جارح اور تشدد پسند کے الفاظ سے پکار کر انھوں نے تاریخی بددیانتی کی ہے۔
ڈاکٹر ملک نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ پشتون کبھی شدت پسند یا جارح نہیں تھے۔ لیکن انھوں نے جس خطے میں بود و باش اختیار کی وہ اکثر چاروں طرف سے یلغار کا شکار رہا اور اس طرح وہ اپنے علاقے کا دفاع کرنے پر مجبور رہے۔
مصنف کے بقول انگریز مورخین اپنی سیاسی مقاصد کے حصول کےلیے پشتونوں کو کبھی ہیرو اور کبھی جارح کے الفاظ سے یاد کرتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق ان مفروضوں اور منفی تاثرات میں مزید شدت اس وقت آئی جب افغانستان میں روس اور نائن الیون کے بعد امریکہ کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا۔اس مزاحمتی جنگ سے ایک بار پھر وہ تاریخ دہرائی گئی جب 19ویں صدی میں اس خطے کے پشتونوں نے انگریز سامراج کو شکست سے دوچار کیا ۔
کتاب میں پشتونوں کی تاریخ ، رہن سہن، معاشرت اور روایات کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے اور روس کے خلاف مزاحمت اور طالبان کے دور پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ کتاب2016 میں تحریر کی گئی اور اسی وقت مصنف نے افغان مسئلے کے حل کےلیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
ڈاکٹر ملک نے پاکستان اور افغانستان میں نوجوانوں، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کی بڑھتی سرگرمیوں اور اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اسے دونوں ممالک میں نئے رحجانات سے تعبیر کیا ہے۔ کتاب میں نوجوان طبقے کے اثر کے ضمن میں جو اشارے دیے گئے ہیں ان کی شکل آجکل سرحد کے دونوں جانب نظر آتی ہے۔
پروفیسر ملک نے طالبان تحریک کو سمجھنے کےلیے کئی کتابوں سے استعفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں طالبان حکومت کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سے ملاقات کرکے ان کا مفصل انٹرویو بھی کیا ہے۔
بنیادی طورپر یہ کتاب تحقیق کاروں اور سبجیکٹ سپشلسٹ کےلیے لکھی گئی ہے لیکن اس میں
پختونوں کی تاریخ اور مزاج کو سمجھنے اور پختونیات سے دلچپسی رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ کے لیے بھی غور و فکر کا بہت سارا سامان موجود ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک پاکستان اور یورپ میں ایک معتبر سکالر کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک تاریخ دان ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا اور یورپی سیاست کے ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ آج کل برطانیہ کے باتھ ایس پی اے یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اب تک 17 سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں جبکہ کئی دیگر کتابوں میں ان کے تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔
نام کتاب: Pashtoon Identity and Geopolitics in South West Asia, Pakistan and Afghanistan Since 9/11
مصنف: پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک
صفحات: 286
ناشر: Anthem Press