میں ترکی کے سیاحتی شہر استنبول میں موجود ہوں، باسفورس کے پانیوں کے کنارے ہر جانب قہقہے ہیں، سیخوں پہ دنبے کی بوٹیاں لگی ہیں اور ترکش چائے کی پیالیاں کھنکنے کی بڑی پیاری سی آواز کانوں سے ٹکرا رہی ہے۔
کبھی جو کوئی مانگنے والا سامنے سے گزرے تو پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شامی مہاجرین کا بچہ ہے، بھیک مانگ کر بچپن گزار رہا ہے۔ بہت سے مانگنے والے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے آلات موسیقی پھیلائے بیٹھے ہیں، جسے دھن پسند آگئی وہ لیرا کے سکے اچھال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
کہیں دور سے ترکش موسیقی کی صدا آرہی ہے، تُرک مغنیہ شاید عشق و وفا کا کوئی گیت گنگنا رہی ہے. تاکسم سکوائر جو ہر آنے جانے والے سیاسی انقلابات کا شاہد ہے اس وقت سیاحوں کے جھرمٹ میں کھڑا مسکرا رہا ہے، نوجوان جوڑے تصویریں بنا رہے ہیں خوش شکل انسان سیلفیاں لے رہے ہیں۔
سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور مجھے پاکستان سے آنے والی خبروں نے تفکرات میں غرق کر رکھا ہے، ترکی کا شدید میٹھا حلوہ بھی بے مزہ سا لگ رہا تھا کہ اچانک تاکسم سکوائر کی شکل میں سارے سوالوں کا جواب مل گیا۔
میرے جو پڑھنے والے بھول گئے ان کی یاد دہانی کے لیے بس اتنا بتا دیتی ہوں کہ 2016 میں جولائی کی گرمی کو چند فوجیوں نے اور ہوا دے کر آگ لگانے کی ٹھانی۔ نصف شب گولوں کی تڑتڑاہٹ میں فوجی بغاوت کا اعلان ہوا، استنبول کی فضاؤں میں ایف سولہ طیارے پروازیں بھرنے لگے، سول حکومت سے ائرپورٹ کنٹرول لے لیا گیا اور شہری علاقوں خاص طور پر انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں آگئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا کا دور ہے خبر بھلا کون روک سکتا ہے، جیسے خبر نہیں رکی ویسے ہی عوام بھی گھروں میں رک نا سکی اور فوجی بغاوت کے خلاف نہتی سڑکوں پہ نکل آئی، واقفان حال کہتے ہیں کہ بعض مرد تو گھروں کا بھاری سامان یا باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیا ہاتھوں میں لہراتے ہوئے سڑکوں پر آنکلے۔ دوستوں یہ فوجی رعونت صرف چند گھنٹے ٹک سکی اور صبح ہوتے ہی رجب طیب اردوغان کی جمہوری حکومت نے فوجی بغاوت کی ناکامی کا اعلان کر دیا۔
جو فوجی اس بغاوت میں آلہ کار بنے وہ بھی بیچارے اپنے تئیں یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ملک کا بھلا ان سے بہتر کوئی نہیں سوچ سکتا اور ملک سے مخلص ان سے بڑھ کر کوئی نہیں، مگر وہ غلطی پر تھے۔ اپنا بھلا عوام جانے یا اس کی منتخب کی ہوئی حکومت۔
یہ آج سے صرف ساڑھے تین سال پہلے کا قصہ ہے، ترکی آگے نکل گیا، حکومت سنبھلی، جمہوریت مضبوط ہوئی۔ ترک قوم نے ایک رات میں صدیوں کا سفر طے کر لیا، آج استنبول کی ہواؤں میں بے یقینی کی بو نہیں، اعتبار کی خوشبو ہے۔
ہمیں درانتی کے تیز دندانے چمکتے نظر آرہے ہیں مگر دوستوں یہ امید بھی رکھنا کہ کیا خبر اب کی بار یہ مسلسل بے یقینی یہ برسوں سے طاری نازک حالات، یہ مہم جوئی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے یہ بھی درانتی کی زد میں آجائیں۔ تاکسم سکوائر نے جواب دے دیا کہ ملک میں نظام کا تسلسل ہے تو فوج ہے، حکومت ہے جمہوریت ہے۔