جب سے ملک کے ایک جواں سال مگر نامور ہدایت کار نے مجھے فلموں میں آئٹم سانگ کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں تب سے میرا ذہن بار بار اس خیال کی طرف بھٹک جاتا ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایٹمی پالیسی سے بھی زیادہ ایک آئٹمی پالیسی کی ضرورت ہے۔
فراہم کردہ معلومات کے مطابق آئٹم سانگ پھٹیچر فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن چکے ہیں۔ کاہل ہدایت کار کم پیسوں کے ساتھ کامیاب فلمیں بنانے کی تکنیکی طور پر ناکام کوشش کو اب آئٹم سانگ کے ذریعے چند مہینوں تک کھڑکی توڑ ہفتوں میں تبدیل کرنے کی حقیقی امید رکھ سکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ آئٹم سانگ بنیادی طور پر پنجابی اور پشتو کی نیم لچر فلموں سے مستعار لیا ہوا ایک تجربہ ہے جس میں مختصر کپڑوں میں ملبوس کوئی معروف فنکارہ ہیجان خیز قسم کے رقص دھماکہ خیز موسیقی کے ساتھ کر کے دیکھنے والوں کو ایسا مسحور کرتی ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ سینما ہاؤس میں آ کر انہوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔
آئٹم سانگ کا فلم کی کہانی یا مرکزی کرداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک سستی فلم کے اندر پانچ، چھ منٹ کی علیحدہ فلم ہوتی ہے۔ کبھی کبھار بڑی فنکارائیں آئٹم سانگ کے صدقے فلم کے اندر زور زبردستی چند ایک اضافی سین کروا کر اپنی انا کی تسکین کرتی ہیں مگر حقیقت میں ان کی ضرورت اس محدود وقت کے لیے ہی ہوتی ہے جب وہ سکرین پر دیکھنے والوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے اپنی تمام رعنائیوں کو برائے کار لاتی ہیں۔ آئٹم سانگ کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ سستی فلم پر بے مزہ کہانی اور پھیکی اداکاری کے حوالے سے تنقید تو ہو سکتی ہے لیکن وہ عریانی و فحاشی کے الزام سے محفوظ رہتی ہے۔
فلم ساز یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلم صاف ستھری ہے بس ایک آدھ آئٹم سانگ ہے جس کو اکثر اوقات سنسر بورڈ بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس طرح ثقافت بھی بچ جاتی ہے اور شرارت بھی۔ سر بھی ڈھکا رہتا ہے اور کمر کی لچک اور کولہے کی مٹک، جسم کی پھٹک سب کچھ ایک فلم میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔ گھٹیا فلمیں، ناکام سکرپٹ، اداکاری کی الف ب سے ناواقف کاسٹ سب کی چارہ گری آئٹم سانگ ہے۔ یہ فلم بینوں کی توجہ فلم کی کمزوریوں سے ہٹا کر ڈانس کی کامیابیوں پر مبذول کروانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اب تو دیکھنے والے فلم کا نہیں آئٹم سانگ کا انتظار کرتے سینما ہاؤسز میں گھنٹے گزار دیتے ہیں۔ ایسی پکی عادت ڈال دی ہے آئٹم سانگ والوں نے۔
آئٹم سانگ کی گوناگوں خصوصیات کے پیش نظر ہمیں اس کی افادیت کو بڑے قومی مسائل سے پیدا ہونے والی ذہنی کوفت اور معاشرتی کھچاو پر بطور نسخہ استعمال کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ آج کل پاکستان میں ہر طرف سے مشکل سوال اٹھائے جا رہے ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ کیوں کہ جواب دینے والوں نے ہی ان عذابوں کو پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے سوالات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے۔ وکلا گردی کے کیا محرکات ہیں؟ آرمی چیف کی وردی کے بارے میں تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں آ رہا؟ سٹیٹ بینک اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ معاشی اعداد و شمار حقائق سے مختلف کیوں ہیں؟ عمران خان بزدار پرستی کب ترک کریں گے؟ اہم اداروں کے اندر ہونے والے خاموش جھگڑے پاکستان کی سیاسی بدقسمتی میں اور کتنا اضافہ کریں گے؟ پشاور بی آر ٹی کب بنے گی؟
پچھلے کئی ہفتے سے ہم نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے ملک ہر جمعے کو آدھ گھنٹے کے لیے ساکت کرنے کی کاوش کیوں ترک کر دی؟ اگلے جمعے کشمیر کے لیے کھڑا ہونا ہے کہ بیٹھنا ہے۔ کشمیریوں کی جان کنی پر ہماری سفارت کاری کے منہ پر تالا کیوں پڑ گیا ہے؟ افغانستان میں چھ مہینے پہلے سے مستقل امن کے قیام کی خوشخبریاں سنانے والے اب کدھر چلے گئے ہیں؟ کور کمانڈرز کی آخری کانفرنس کے بعد پریس ریلیز کیوں جاری نہیں ہوئی؟ آئی ایس پی آر ڈی جی کے متحرک ہرکاروں کی طرف سے اگلے دن اعلان شدہ پریس کانفرنس کی خبریں لگوانے کے باوجود وہ کانفرنس کیوں نہ ہو پائی؟
پاکستان میں انسانی ترقی کے معیار کی گراوٹ اس حد تک کیسے جا پہنچی کہ اب ہم اپنے خطے میں اہم ترین پیمانوں پر نیپال اور بھوٹان سے بھی نیچے کھڑے ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بیشمار دوسرے سوال جنہوں نے قوم کو ذہنی گردش میں ڈال دیا ہے کسی طور اذہان سے نکالے نہیں جا سکتے۔ معاشی تنگی اور ہر روز کی غیریقینی صورت حال نے قوم کے بچے بچے کو شکی مزاج بنا دیا ہے۔ سوالوں کے جواب لیے بغیر وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔ مگر یہ جوابات میسر کیے نہیں جا سکتے کیوں کہ ایسا کرنے میں وہ تمام حقائق سامنے لانے ہوں گے جن کو چھپا کر اداروں اور طاقت میں موجود افراد نے اپنا بھرم قائم رکھا ہوا ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ نہ سوال جائیں گے نہ جواب آئیں گے۔ ایسے میں بددلی پھیلے گی۔ ہر سو ہو گی مایوسی۔ ہر جگہ شبہ کا راج ہو گا۔ اس سے تو قومی یکجہتی متاثر ہو سکتی ہے۔ قوم مایوسیوں میں گھر جائے گی۔ دشمن نفسیاتی جنگ کیے بغیر جیت جائے گا۔ ایٹم بم بھی کام نہیں کرے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل نئے آئٹم سانگ بنانے میں ہے۔ قوم کو ہم کیوں ملک کے ہر شعبے میں چلنے والی پھٹیچر اور ناکام فلم پر توجہ مبذول کرنے دیں؟
کیوں ہم ان کے دماغوں میں فتور کے دروازے کھلنے دیں؟ ہمیں ان کے لیے آئٹم سانگ کی بجلیوں کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ وہ ملکی پردہ سکرین پر چلنے والی ناکام ہدایت کاروں کی بدترین پروڈکشن کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ ہم کشمیر پر ایک آئٹم سانگ بنا کر قوم میں جہادی جذبہ دوبارہ سے بیدار کر سکتے ہیں۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ جہادی جذبہ انتہائی ہومیوپیتھک ہونا چاہیے۔ اس میں کھلونا بندوق میں سے نکلنے والی ٹشوں ٹشوں کی آواز بھی نہیں ہونی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس والے کمبخت اسی پر ہمارا بازو اور مروڑ دیں۔ جب میک اپ سے لدی کودتی پھاندتی خاتون اپنی ہم جولیوں کے ساتھ تھرکے گی تو قوم کے نوجوانوں کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آئے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ ایسا معاملہ اقتصادیات کے شعبے میں بھی کرنا پڑے گا۔ کوئی ایک آدھ آئٹم سانگ ایسا تیار کروائیں کہ لوگ ٹماٹر، آلو، پیاز، دالوں، دوائیوں اور بےروزگاری کے اعداد و شمار کی بجائے اس شمار پر لگ جائیں کہ آئٹم سانگ میں سکرین پر بجلی کڑکانے والی رقاصہ نے پانچ منٹ میں کتنے لباس بدلے۔ وہ حکومت کی معاشی ٹیم کے خوفناک اقدامات اور اس سے نکلنے والے بھیانک نتائج کو یکسر بھول جائیں۔ وہ بس گانا سنیں۔ بلکہ سنیں بھی نہ صرف دیکھیں۔ ان کے دل کو اچھا لگے۔ دماغ کو سکون ہو۔ ان کے ذہن میں شوق، چاہت اور لگاؤ پیدا ہو۔ صدمے پہنچانے والے حقائق کی دلخراشیاں بھول جائیں اور آنکھیں بند کیے یہی سوچتے رہیں کہ کیا ٹھمکا تھا، کیا جھٹکا دیا۔
رضا باقر، شبر زیدی، حفیظ شیخ ٹماٹر والے آئٹم سانگ کو دیکھنے کے بعد پیدا ہونے والی اجتماعی اطمینانیت کو معاشی اعداد و شمار میں شامل کر کے اپنی اقتصادی پالیسی کے بھونڈے سکرپٹ کو توانا بھی بنا سکتے ہیں۔ مثلا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام معاشی سرگرمیوں کا واحد مقصد لوگوں میں اطمیان پھیلانا ہے اور اگر آئٹم سانگ کے ذریعے ہر گھر میں اس اطمینان کے پہنچانے کا بندوبست کر رہا ہے تو یقینا ان کی معاشی پالیسی کامیاب قرار دیے جانے کی ہی مستحق ہے۔
کچھ ایسا اہتمام آرمی چیف کی ایکسٹینشن، ملک کے اندر پھیلی ہوئی افراتفری اور بڑھتے ہوئے متشدد رویوں کے بارے میں بھی کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ ہمارے تمام جھنجھٹ اور دل کے درد دور کرنے کا بس اب یہی ایک ہی ذریعہ ہے خارجہ پالیسی اور دفاعی محاذ پر چھائے ہوئے خطرات جن کی وجہ سے جنرل باجوہ ناگزیر ہو چکے ہیں۔ اگر تمام وفاقی کابینہ عمران خان کی سربراہی میں اپنے پسندیدہ ہدایت کاروں کے ساتھ مل کر آئٹم سانگ پر مبنی ہر مہینے ایک فلم ریلیز کر دے تو ہم تفکر سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
متحدہ اپوزیشن بھی اگر نئے انتخابات اور نئے وزیر اعظم کے مطالبات کو آئٹم سانگ کے مطالبے میں تبدیل کر دے تو اس سے قومی یکجہتی میں بھی خوب اضافہ ہو گا۔ ہمیں اس وقت ایٹمی نہیں آئٹمی تحفظ کی ضرورت ہے۔ اس کو فورا مہیا ہونا چاہیے۔