بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں علیحدگی پسند گروپوں کے خلاف بڑے پیمانہ پر کریک ڈاون میں کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اب تک 160 کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
یہ کریک ڈاؤن بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے حملے کے بعد شروع کیا گیا ہے جس میں 40 انڈین سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
بعض ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کے زیرا انتظام کشمیر میں بھاری نفری تعینات کی گئی ہے جس کی وجہ سے وادی میں خوف کی فضا پھیل گئی ہے۔
تاہم جموں کے گورنر ستیا ملک نے عوام سے پرامن رہنے اور ’افواہوں‘ پر یقین نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سکیورٹی اہلکار صرف انتخابات کی وجہ سے تعینات کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کئی دوکانیں، پیٹرول سٹیشن اور دیگر کاروبار بند ہیں۔ مرکزی شہر سری نگر کے بعض علاقوں میں حکومت کی جانب سے لوگوں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔
روئٹر کے مطابق بھارت کے زیرانتظام جموں اور کشمیر کی حکومت نے کہا ہے کہ وادی میں ایندھن کی قلت پیدا ہو گئی ہے، صرف ایک روز کا پیٹرول، چار دن کا ڈیزل اور ایل پی جی مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ایدھن کی قلت پولامہ حملے کے بعد سڑکوں کی بندش کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، تاہم ایندھن کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گذشتہ دو دنوں کے دوران حراست میں لیے جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے بتایا جا رہا ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’چونکہ کشمیر میں جماعت اسلامی کا نیٹ ورک وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے اور وہ ہی بھارت مخالف احتجاج کروا رہے ہیں، اس لیے ان کی گرفتاری انتخابات سے قبل اس طرح کے مظاہروں کو ربوکنے میں مددگار ہو گی۔‘