ووٹ کو عزت دو والوں کا اعلان بغاوت غیر مشروط مفاہمت میں بدل گیا اور اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے اصول پھر اسی مفاد پر قربان ہوگئے۔ سول سپریمیسی کا خواب دکھانے والوں نے عین تعبیر کے دہانے پر خطرناک یو ٹرن لیا جس سے نہ صرف ان نعروں کے پیچھے چلنے والے عوام کا دل ٹوٹ گیا بلکہ عمران خان کا یوٹرن لینے کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔
جمہوریت کی بالادستی کا فرسودہ خواب دکھانے والے عادی منکر ہیں یہ اس سے پہلے بھی کئی بار جمہوریت کی بالادستی کا عہد کر کے صراط مستقیم سے پھسلے اور کئی بار توبہ تائب کر کے سنبھلے، یہ سنبھلنے اور پھسلنے کا ڈرامہ ماضی میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوتا رہا ہے۔ مگر کیا آج کے عوام کے سیاسی شعور اور بیانیے کی جنگ لڑنے والے نوجوان ووٹرز کی آنکھوں میں دن دہاڑے ایسے خاک ڈال کر یہ جماعتیں اپنی سیاست بچا لیں گی؟؟؟
پاکستان میں سول سپریمیسی کا نعرہ کبھی آؤٹ آف فیشن نہیں ہوتا۔ یہ نعرہ اصولی ہے اس میں دو رائے نہیں مگر یہ گتھی ہمیشہ الجھی رہی یا الجھائی گئی کہ کیا سیاسی جماعتیں سول سپریمیسی کا نعرہ اصول کی بنیاد پر لگاتی ہیں یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس کو بوقت ضرورت استعمال کرتی ہیں۔
بہرحال یہ نعرہ کبھی اونچی آواز میں کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں ہمیشہ سیاسی بیانیے کا حصہ رہا ہے۔ سول سپریمیسی کی منزل کی طرف گذشتہ ایک دہائی میں جو پیش رفت ہوئی تھی سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملک کی سیاسی قیادت کو اس پیش رفت کو حقیقت بنانے کا موقع دیا، لیکن سیاسی جماعتوں نے یہ موقع گنوا دیا۔ اس ساری سودے بازی میں صرف جے یو آئی اور جے یو ایف اپنی سیاست کے لیے نیک نامی کمانے میں کام یاب ہو سکی۔
سب سے پہلے تحریک انصاف کی بات کریں تو بجائے اس کے کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف باجوہ صاحب کے لیے خصوصی گنجائش پیدا کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف رسہ کشی کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا سوچتی انہوں نے بھرپور زور لگا کر یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے متنازع بحث کا حصہ بنا دیا۔ اب ہر چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت مکمل ہونے پر یہ تنازع ہر بار سر اٹھائے گا۔
اس معاملے میں پی ٹی آئی کے سیاسی کردار پر اس سلسلے میں کوئی سوال کرنا غیر ضروری ہے۔ عمران خان صاحب نے نظریہ یو ٹرن متعارف کرا کے اپنے سیاسی فیصلوں کو اصولوں سے بہت پہلے ہی آزاد کرا لیا تھا۔
گذشتہ ایک دہائی سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہم رہی۔ اشاروں کنایوں میں فوج کی امور سیاست میں مداخلت کا قصہ میڈیا پر زور شور سے زیر بحث آنے لگا۔ سوشل میڈیا کے آنے سے اس بحث میں عام لوگوں کی آوازیں اور رائے بھی شامل ہو گئی۔ عوامی رائے ہموار ہونے سے سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے گناہ دھونے کا موقع ملا۔ تاریخی طور پر سیاسی جماعتوں نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہمیشہ فوج کی حکومت میں مداخلت اور اقتدار پر قابض ہونے پر ڈالا ہے۔ اپنی کامیابی کے لیے ان سیاسی جماعتوں نے سول سپریمیسی کے خواب میں پھر رنگ بھرنے شروع کیے۔ الفاظ کی حد تک یہ خواب بڑا خوش رنگ تھا مگر جب بھی اپنے کہے پر عمل کرنے کی باری آئی روایتی مفادات اور اقتدار کی سیاست اس بیانیے پر سبقت لے گئی۔
سوشل میڈیا پر سول سپریمیسی کے بیانیے کی جنگ لڑنے والے نوجوانوں نے اس خواب کی تعبیر کو ملک کی پرانی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ جوڑا اور اب ان کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ آئین اور جمہور یت کی بالادستی کے سہانے سپنے دیکھنے والے دکھ اور حیرت سے بولائے پھر رہے ہیں، پارلیمنٹ کے فلور پر شرم و حیا وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرنے والے ذرا ذرا شرمائے ہوئے ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے رہے اور سپریمیسی کے خواب کے پیچھے چلنے والے بیچارے پھر گہرے گڑھے میں گر گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواز لیگ کا قصہ سب سے عجیب ہے، اگرچہ یہ پرانی جماعت ہے مگر یہ پارٹی نئی نئی نظریاتی ہوئی ہے۔ سول سپریمیسی کی ازسر نو تشریح کا نعرہ لگا کر ہی نواز شریف نے نظریاتی سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ مریم نواز کی سیاست کا محور و مرکز بھی یہی نعرہ تھا۔ یہ ابہام محض بہلاوا ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ اور شہباز شریف کا بیانیہ الگ ہے، یہ چھوٹے بڑے میاں کی رام کہانی بھی ایک دھوکہ ہے، مریم نواز اگر اس سارے قصے میں اپنی کوئی الگ سیاسی رائے رکھتی ہیں تو ان کو میاں صاحب کی ’بیماری کا بہانہ‘ کر کے اس رائے کو آنے والے وقت کے لیے نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ دوبارہ وہ ووٹ کو عزت دو جیسے نعرے لگانے کے قابل نہیں رہیں گی۔
یہ ہی حال بلاول بھٹو زرداری کا ہے اپنے عملی سیاسی کئریر کے آغاز میں ہی اتنے اہم ایشو پر مؤقف بدلنے کا دھبہ ان کے سیاسی مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ اصولوں کی سیاست کے حوالے سے بدقسمتی سے روشن مثالیں ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ان جماعتوں پر عوام کا یقین کرنا عجیب معاملہ رہا۔
اصحاب نظر ہمیشہ یہ گتھی سلجھانے کی کوشش میں رہے کہ یہ عوام بھولے ہیں معصوم یا بے وقوف یا شاید سب ہی ہیں۔ وہ عوام جن کے مسائل کے حل کے لیے یہ کلف لگے سیاستدان گردنوں میں سریا لیے پارلیمنٹ میں آتے ہیں اس عوام کے مسائل پر قانون سازی کے لیے کبھی اس یکجہتی کا نظارہ اس قوم کو نصیب نہیں ہوا جو فوجی عدالتوں اور آرمی ایکٹ پر قانون سازی کے عمل میں دیکھنے کو ملا۔
بچوں کے تحفظ کا بل ہو، زینب الرٹ بل ہو، تعلیمی نظام کے اصلاحات کا ایجنڈا ہو یا پھر بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا حل تلاش کرنے کا معاملہ ان سیاستدانوں کو کبھی یک زبان ہو کر بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ مگر جہاں مفادات کے بچاؤ کا سوال آیا جہاں پارٹی کی سربراہی مقصود ہوئی جہاں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے رستے میں کوئی قانونی سقم آیا جہاں اپنے آپ کو کیسز سے بچانے کی ضرورت ہوئی وہاں بغیر کسی شرم کے سب معاملات ایسے طے پائے جیسے کوئی تنازعہ تھا ہی نہیں۔ جہاں اپنے مفادات پر حرف آیا وہاں سب کے جوش خطابت اور شوق بغاوت کو سانپ سونگھ گیا۔
مسئلہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے طاقت ور ہونے کا نہیں مسئلہ عوامی مسائل پر سیاست کرنے والوں کی پوشیدہ کمزوریوں کا ہے آخر وہ کیا مجبوری ہے، کون سی پوشیدہ کمزوری ہے جو ہمیشہ ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی پوشیدہ کمزوریوں کو اب عوام کے سامنے لانا ہو گا۔ ن لیگ اچھے بچے اور گندے بچے والی سیاست مزید نہیں کھیل سکے گی۔ بڑے اور چھوٹے میاں دو الگ بیانیوں کے ساتھ ایک جماعت نہیں چلا سکتے۔ وہ عوام جو سوشل میڈیا پر دھواں دھار تقریریں دیکھ کر اپنی رائے بنا رہی ہے وہ اس نظریہ ضرورت کے تحت ’قومی مفاد کے لیے قربانی‘ کے جھانسے میں آنے والی نہیں ہے۔
ماضی میں جب مفادات کی سیاست ہوتی تھی تو سوشل میڈیا کی عدم موجودگی ٹی وی چینلز کا نا ہونا ایک طرح سے رحمت تھا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ کب کوئی مرد حر ریت کی دیوار ثابت ہوا اور کن مفادات پر اصول قربان ہوئے، اصل کہانی بند گلیوں سے دہائیوں کے بعد نکلتی تھی اور پھر ذرا سے شور شرابے میں دب جاتی تھی لیکن اب یہ سہولت موجود نہیں کہ کوئی بھی جماعت ذاتی مفادات کے لیے عوامی جذبات کی سودے بازی کو چھپا لے۔
بند دروازوں کے پیچھے یا تاریک کونوں میں جہاں بھی یہ سودے بازی ہوتی ہے سب عوام کو نا صرف نظر آتا ہے بلکہ ان کے پاس اپنی بے چینی اور بے یقینی کے اظہار کے کئی ذریعے ہیں۔ ن لیگ کی نئی نئی نظریاتی سیاست پر یقین کرنے والے آرمی ایکٹ کی غیر مشروط حمایت کرنے پر سوشل میڈیا پر اپنی مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان جماعتوں نے بلند و بانگ نعرے لگا کر عوامی سوچ کا حصہ بنایا۔ اس بیانیے کا محور و مرکز سول سپریمیسی کی بحالی تھا، ن لیگ کے عام سپورٹرز پر اس بیانیے کی حمایت کی وجہ سے کئی مشکلیں آئیں۔ سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ ایک جنگ کی صورت میں لڑا گیا۔
ن لیگ پر جب اپنے نظریاتی اصولوں پر کھڑے رہنے کا وقت آیا وہ ایسے لڑکھڑائے کہ شاید اب دوبارہ اس بیانیے کا ’ب‘ بھی دوہرانا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ اصولوں پر لمبے لمبے بھاشن دینے والے بلاول زرداری نے اس سارے قصے میں جو توجیحات پیش کیں وہ بھی ان سے امیدیں رکھنے والوں کو کافی گراں گزری، دونوں جماعتوں کو صرف اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کی تنقید کا سامنا نہیں ہے بلکہ ان کی اصولی سیاست کو سراہنے والے اینکرز بھی کافی مایوس نظر آتے ہیں۔
اس شکست کو دونوں جماعتیں حالات کی نزاکت کہیں یا ملکی مفاد کے لیے دی جانے والی قربانی، سوشل میڈیا پر ان جماعتوں کے بیانیے کی جنگ لڑنے والوں کا ایمان ان جماعتوں پر بری طرح متزلزل ہو چکا ہے۔