ایک انڈین مرد کو جنہوں نے مبینہ طور پر برطانوی کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر این جان کیم کا روپ دھار لیا تھا غیر مجاز سرجری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مبینہ طور پر ایک عیسائی مشنری ہسپتال میں سات مریضوں کی اموات ہوئی تھیں۔
53 سالہ نریندر وکرمادتیہ یادو پر جعلی میڈیکل ڈگریاں بنانے، مشہور برطانوی ماہر امراض قلب کی شناخت چرانے اور انڈیا بھر کے ہسپتالوں میں تقریباً دو دہائیوں تک کام کرنے کا الزام ہے۔
پیر کو گرفتاری سے چند گھنٹے قبل ہی، انہوں نے اپنے خلاف جعلسازی کے الزامات لگانے والوں کے خلاف پانچ کروڑ انڈین روپے (تقریباً 4 لاکھ 55 ہزار پاؤنڈ) ہرجانے کا قانونی نوٹس بھی دائر کیا تھا۔
یادو نے مدھیہ پردیش کی ریاست کے شہر داموہ کے مشن ہسپتال میں ڈاکٹر کیم کے نام سے کام کیا۔
ان پر جعلسازی، دھوکہ دہی اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جبکہ ہسپتال نے ان پر چوری کا الزام بھی لگایا ہے۔
انہوں نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
ہسپتال کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے دا انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’کسی کو ان پر شک نہیں ہوا کہ وہ جعلی ڈاکٹر ہیں۔ وہ اپنے کام میں ماہر لگتے تھے اور بڑے پروفیسر کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔‘
انڈین نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی تحقیق کے مطابق یادو کی مبینہ میڈیکل ڈگریاں – ایم بی بی ایس، ایم آر سی پی (لندن) اور ڈی ایم (کارڈیالوجی) سب جعلی ثابت ہوئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم بی بی ایس رجسٹریشن نمبر دراصل ایک خاتون کا تھا، جبکہ ان کی دیگر ’تعلیم‘ کا کوئی معتبر ریکارڈ موجود نہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یادو کے کاغذات اور آلات سے جعلی شناختوں کے شواہد ملے ہیں، اور وہ ان کے طبی علم کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان کے پاس کوئی حقیقی مہارت تھی یا نہیں۔ یادو مبینہ طور پر گذشتہ سات سے آٹھ سال سے مدھیہ پردیش میں برطانوی ڈاکٹر کی شناخت چوری کر کے کام کر رہے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ داموہ کے ہسپتال میں اپنے مختصر قیام کے دوران، انہوں نے 64 سرجریاں کیں، جن میں 45 انجیو پلاسٹیز شامل تھیں۔ وہ اس وقت جانچ کی زد میں آئے جب داموہ کی چائلڈ ویلفیئر کمیٹی نے ان کی زیر نگرانی کئی مریضوں کی اموات پر سوال اٹھائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یادو جلد ہی بغیر اطلاع کے غائب ہو گئے۔ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے صدر، دیپک تیواری نے بتایا کہ انہیں ان کی طبی مہارت پر شک ہوا اور آن لائن تلاش کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے خلاف کم از کم تین ریاستوں میں مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔
یادو کی مبینہ طبی جعلسازی کی تاریخ کم از کم 2006 تک جاتی ہے، جب انہوں نے چھتیس گڑھ کے اپولو ہسپتال میں آپریشن کیے، جن میں سابق ریاستی اسمبل اسپیکر راجندر پرساد شکلا بھی شامل تھے۔ اس عرصے میں ان پر آٹھ مریضوں کی موت کا الزام ہے۔
اس وقت کی ایک تفتیش میں بھی ان کی ایم بی بی ایس ڈگری پر شکوک کا اظہار کیا گیا تھا۔
اصل ڈاکٹر جون کیم نے انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’یہ شناختی چوری تقریباً پانچ سال قبل پہلی بار میرے علم میں آئی۔ یہ کافی پریشان کن بات تھی۔ انہوں نے مختلف اوقات میں دعویٰ کیا کہ وہ میں ہوں یا میرے زیرِ تربیت رہے ہیں، خاص طور پر لندن کے سینٹ جارجز ہسپتال میں۔‘
داموہ کے پولیس سربراہ نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ یادو نے ’کل 64 کیسز پر کام کیا، جن میں 45 انجیو پلاسٹی کیسز شامل ہیں، جن کے نتیجے میں سات مریضوں کی موت ہوئی۔‘
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ موہن یادو نے کہا ہے کہ ریاست نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
گذشتہ برسوں میں یادو کی شناخت پر کئی بار سوالات اٹھے۔ بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ 2019 کے ایک بلاگ میں انہوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ برطانوی ماہر امراض قلب پروفیسر اے جون کیم کے زیرِ تربیت رہے ہیں اور دنیا کے صف اول کے ہسپتالوں میں کام کیا ہے۔
یادو کو مقامی عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد پانچ دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’ملزم نے ہمیں بتایا کہ وہ کانپور میں رہتا تھا۔ ان کے کچھ دستاویزات اتراکھنڈ کے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کی بیوی اس ریاست سے ہے۔‘
2021 میں ایک بلاگ میں، یادو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ شمالی ریاست راجستھان میں ’ڈاکٹر این جون کیم، مشہور جرمن انٹروینشنل کارڈیالوجسٹ‘ کی قیادت میں پانچ ہزار بستروں پر مشتمل جان کیم انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ قائم کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ویتنام اور تنزانیہ میں بھی اسی طرح کی صحت کی سہولیات بین الاقوامی ڈاکٹروں کی ٹیم کی مدد سے بنائی جا رہی ہیں۔
© The Independent