0 seconds of 2 minutes, 54 secondsVolume 90%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
02:54
02:54
 

غزہ پر امریکی/اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف احتجاج، کراچی میں کے ایف سی حملے پر 10 افراد گرفتار: پولیس

پولیس افسر اسد رضا کے مطابق احتجاج غزہ میں امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف تھا۔

کراچی میں پولیس نے بتایا کہ منگل کو کورنگی روڈ پر واقع ایک غیر ملکی فوڈ چین ریستوران کے ایف سی پر مشتعل افراد کی توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کر کے تقریباً 10 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

مقدمے میں نامزد مزید 30 سے 35 افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

واقعے کا مقدمہ متاثرہ ریستوران کے ملازم شاہ زیب کی مدعیت میں ڈیفنس تھانے میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں ہنگامہ آرائی، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے، دھمکیاں دینے اور امن میں خلل ڈالنے جیسے الزامات شامل ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق شاہ زیب اور ان کے ساتھی معمول کے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک بڑی تعداد میں مسلح افراد ریستوران کی جانب بڑھتے دکھائی دیے۔

حملہ آوروں نے ریستوران میں داخل ہوتے ہی شیشے توڑ دیے، فرنیچر کو نقصان پہنچایا اور دیگر اشیا تباہ کر ڈالیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ریستوران کے عملے نے جب باہر آ کر صورتحال کا جائزہ لیا تو ان کو قریبی واقع ایک پیزا فرنچائز کا شیشہ بھی چکنا چور نظر آیا۔

پولیس نے موقعے پر پہنچ کر دو افراد منصور اور محمد حسن کو گرفتار کر لیا، جو ابتدائی معلومات کے مطابق سرکاری ملازمین ہیں۔

ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق ’منگل کی شب آٹھ بجے 40-50 افراد نے، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، کورنگی روڈ پر واقع غیر ملکی ریستوران پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کرنے کی کوشش کی۔

’پولیس نے فوری ردعمل ظاہر کیا اور ہجوم کو منتشر کر دیا۔ اب تک تقریباً 10 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’احتجاج غزہ میں امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف تھا، تاہم صورتحال اب قابو میں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں اور ان کے منتظمین کا تعاقب جاری ہے اور ان سب کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق کے ایف سی کی دیگر برانچوں پر کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے سکیورٹی انتظامات کر دیے گئے ہیں۔

ماہر معیشت عابد سلہری نے بتایا کہ ’غزہ کے معاملے کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا تھا۔

’تاہم پچھلے کچھ عرصے سے اس بائیکاٹ کا اثر کم ہوتا جا رہا تھا۔ سیز فائر نہ ہونے، اسرائیلی ہٹ دھرمی، صدر ٹرمپ کی پالیسیوں اور وہاں ہونے والے مظالم کی خبریں جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر آئیں، ان سب نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جن آؤٹ لیٹس پر حملے ہو رہے ہیں، ان کے مالکان پاکستانی ہیں، اور وہ نہ صرف مقامی افراد کو ملازمتیں فراہم کر رہے ہیں بلکہ ملکی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

’ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی بیشتر چیزیں انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے آتی ہیں۔ اس طرح کے حملوں اور توڑ پھوڑ کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔‘

عابد سلہری کے مطابق ’یہ ضروری ہے کہ ہم جذباتی ردعمل سے گریز کریں۔ اگر کسی برانڈ کا بائیکاٹ کرنا ہے تو یہ ہماری ذاتی چوائس ہو سکتی ہے، لیکن توڑ پھوڑ اور اس طرح کے اقدامات سے ہمیں بچنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ جہاں تک بائیکاٹ کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ فوڈ اینڈ بیوریجز ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بائیکاٹ کا پاکستانی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بائیکاٹ اس چیز کا کیا جاتا ہے جس کا متبادل موجود ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جذباتی ردعمل میں آ کر چند آؤٹ لیٹس پر حملہ کریں گے تو اس سے فرنچائز مالکان کو نقصان ہوگا، امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوگی اور ملک کا عالمی امیج متاثر ہوگا۔

تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان ریحان محسن خان نے کہا کہ ان کی تنظیم کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت کے خلاف ہم نے مہم چلائی، مارچ کیے اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے بھی آواز بلند کی۔

’تحریک لبیک پاکستان ایک منظم جماعت ہے۔ گذشتہ روز کراچی کے ریستوران پر کچھ نامعلوم نوجوانوں نے حملہ کیا جس سے تحریک لبیک پاکستان کا کوئی واسطہ نہیں۔

’ہماری جماعت پر امن انداز میں کام کرتی ہے، ہم پر بے بنیاد الزام لگائے جاتے ہیں جبکہ ہماری جماعت کا قانون کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان