جارج آرویل نے جب 1949 میں مستقبل کی تصویر کشی پر ناول ’1984‘ لکھا تو بیشتر ناقدین نے پہلے اسے خرافات سے تعبیر کیا مگر جب دنیا کے مختلف ممالک میں منفی سیاست، تاریخ کو مسخ کرنے، جمہوریت کی آڑ میں آمرانہ نظام رائج ہونے لگا تو اس ناول کی افادیت کا اندازہ ہر خاص و عام کو ہوگیا۔
آج کل اس ناول کا ذکر بھارت میں ہونے والے بیشتر احتجاجی مظاہروں میں کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ بھارت کے سیاسی اور تعلیمی اداروں میں کہرام مچا رہی ہے۔ فیض کو پاکستان میں جیسے کم سہنا پڑا تھا جو اب بھارت میں ان پر کمیشن بٹھانے کی نوبت آ گئی ہے۔
جب ہم دس برس پہلے اور آج کے بھارت کا موازنہ کرتے ہیں تو 1984 کا ناول یہاں کے حالات پر فٹ بیٹھتا ہے اور لگتا ہے کہ جارج نے آج کے بھارت کی تصویر کشی سات دہائی پہلے کی تھی۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ آپ کے لیے بھارت کا نیا نقشہ پیش کروں تا کہ آپ کو بھی اندازہ ہوسکے کہ ملک و قوم کیسے بدلتے ہیں۔
یہ کہانی ہے اس ملک کی جہاں ہر سات منٹ میں ایک عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ یہ کہانی ہے اس ملک کی جہاں 65 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے جنہیں روزگار کے بدلے میں مذہبی روٹیاں کھلائیں جا رہی ہیں۔ یہ کہانی ہے اس دیش کی جہاں تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو لوہے کی سلاخوں، لاٹھیوں اور پتھروں سے ادھ موا کیا جاتا ہے، طالبات کے کپڑے تار تار کرکے ٹوائلٹ میں بند کیا جاتا ہے۔
یہ کہانی ہے اس ملک کی جہاں نچلی ذات کے ہندو یعنی دلتوں پر اونچی ذات کے کنویں سے پانی پینے پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ یہ کہانی ہے اس دیش کی جہاں اقتصادی دیوالیہ پن کو ملک کی ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی ہے اس وطن کی جہاں نوٹ بندی کی وجہ سے حکومت کو ایک لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوگیا، بینکوں میں وہ ساری جعلی کرنسی واپس آئی جس پر حکومت کو دگنی رقم خرچ کرنا پڑی۔
یہ کہانی اس ملک کی ہے جہاں سیاست دان کا مجسمہ بنانے پر تین ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ملیریا کا ویکسین بنانے کے لیے بیرونی ممالک سے مدد مانگی جاتی ہے۔ یہ کہانی ہے اس دیش کی جس کے وزیر کہتے ہیں کہ بھارتی گائے کے دودھ میں سونا ہے جس کی وجہ سے ان کا دودھ پیلا ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کہانی ہے اس دیش کی جہاں جی ایس ٹی کے اطلاق کے بعد 50 لاکھ لوگ روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی ہے اس ملک کی جہاں گائے بچاؤ مہم سے جڑے کٹر ہندوؤں نے تین سالوں میں 44 مسلمانوں اور دلتوں کو قتل کیا۔ یہ کہانی ہے اس دیش کی جہاں دانشوروں، انعام یافتہ مورخوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو اسیر رکھ کر دیش دروہی کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔
یہ کہانی ہے اس جمہوریت کی جس نے 80 لاکھ لوگوں کی آئینی شناخت اور پرچم چھین کر انہیں ایک بڑی جیل میں قید کر لیا ہے۔ یہ کہانی اس دیش کی ہے جس نے 15 لاکھ بچوں کو گھروں میں محصور کرکے ان سے تعلیم کا حق چھین لیا۔ یہ کہانی ہے عدم تشدد کی تحریک چلانے والے اس دیش کی جس نے گذشتہ 30 برسوں میں کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا، کروڑوں روپے کی املاک کو جلایا، ہزاروں کو جیلوں میں بند کیا اور سینکڑوں کو پیلٹ چلا کر بینائی سے محروم کر دیا۔
یہ کہانی ہے اس سیکولر ملک کی جس نے 22 کروڑ مسلمان شہریوں سے وطن پرستی کا ثبوت مانگا ہے اور 20 لاکھ افراد کو غیر شہری قرار دے کر حراستی مراکز میں قید رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ کہانی اس ملک کی ہے جہاں 15 امیر اشخاص ملک کی دولت کے 50 فیصد حصے کے مالک ہیں اور 36 کروڑ خط غربت سے نیچے گزر بسر کر رہے ہیں یعنی ایک ڈالر سے کم پر۔۔۔
اگر کوئی اب بھی اس ملک کو جمہوری سیکولر ملک مانتا ہے تو جارج آرویل کا 1984 کا ناول یقیناً خرافات ہے۔