بھارت کے وزیر برائے آبی وسائل نتن گڈکاری نے کہا ہے کہ بھارت کے حصے کا پانی جو کہ پاکستانی کو جاتا تھا اب اسے نہیں جانے دیا جائے گا اور ان دریاؤں کا رخ موڑ کر پانی جموں کشمیر کو فراہم کیا جائے گا۔
سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں لڑی گئی ہیں اور مختلف معاملوں پر تنازعات رہے ہیں مگر یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایسی چیز ہے جو مختلف شکایات کے باوجود نافذ العمل ہے۔
سندھ طاس معاہدہ بنیادی طور 'انڈس بیسن ٹریٹی' (سندھ طاس) کے پانی کی تقسیم کے لیے دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہے۔
سندھ طاس نہری نظام
انڈس بیسن کے پانی کا ماخذ چین میں ہے اور یہ پانی بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہوتا ہوا پنجاب اور سندھ سے گزر کر بحیرۂ عرب میں جاتا ہے۔ اس نہری نظام میں چھ دریا ہیں جن میں سے تین مشرقی ہیں اور تین مغربی۔
مغربی دریاؤں میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب ہیں جبکہ مشرقی دریاؤں میں راوی، بیاس اور ستلج شامل ہیں۔
ان دریاؤں کا جغرافیہ کچھ اس طرح ہے کہ دریا تو پاکستان میں بہتے ہیں مگر وہ نکلتے بھارت سے ہیں۔
سندھ طاس معاہدے کی ضرورت کیوں پڑی؟
1947 میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان وسائل کی تقسیم کی بحث چھڑی تو اس میں پانی کا بھی تنازع سامنے آیا۔
اس تنازعے سے نمٹنے کے لیے چار مئی 1948 کو دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ بھارت پاکستان کو ضرورت کے مطابق پانی فراہم کرے گا جبکہ پاکستان اس پانی کے عوض بھارت کو معاوضہ ادا کرے گا۔ یہ معاہدہ عارضی انتظام کے لیے تھا اور دونوں ممالک کے درمیان دیرپا حل کے لیے مذاکرات جاری رہے اور بالاخر مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہوئے ورلڈ بینک نے اس معاملے پر ثالثی کرنا شروع کی اور سالہاسال کی کاوشوں کے بعد 1960 میں ورلڈ بینک پاکستان اوربھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کروانے میں کامیاب ہو گیا۔
سندھ طاس معاہدے کے مندرجات
سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہو گا جبکہ تین مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج پر بھارت کا حق ہو گا۔
1960 میں طے پانے والا اس معاہدے کی توثیق اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے کی تھی۔
معاہدے کے مطابق تینوں مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق ہوگا مگر جب وہ پاکستان میں داخل ہوں گے تو پاکستان ان کا استعمال کر سکے گا جبکہ بھارت دریائے سندھ کا 20 فیصد پانی استعمال کر سکتا ہے۔
بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
سندھ طاس معاہدے کے تحت اگرچہ پاکستان کا مغربی دریاؤں کے پانی پر حق ہے مگر بھارت بھی اس پانی کو سخت شرائط کے تحت استعمال کر سکتا ہے جس کے تحت پاکستان کو پانی کی رسائی متاثر نہ ہو۔
بھارت کے دو منصوبے کشن گنگا ڈیم اور رتلے ڈیم دونوں بالترتیب دریائے جہلم اور دریائے چناب پر موجود ہیں اور پاکستان ان دونوں منصوبوں کے خلاف عالمی بینک سے رجوع کر چکا ہے اور عالمی بینک نے پاکستان کو تنازعے کے حل کے لیے ’غیر جانبدار ماہرین‘ کو ماننے کا کہا ہے۔
کشن گنگا ڈیم لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں واقع ہے جس کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے سال کیا تھا۔ بھارت نے اس ڈیم پر کام 2007 میں شروع کیا تھا مگر 2010 میں دی ہیگ کی عالمی عدالت نے اس منصوبے کو تین سال کے لیے روک دیا تھا۔ 2013 میں عالمی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ چونکہ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو پانی کی رسائی متاثر نہیں ہو گی اس لیے اس پر ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے 2016 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی پاکستان کا پانی روکنے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ اڑی حملے کے بعد نریندر مودی نے کہا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔
مغربی دریاؤں کے علاوہ پاکستان مشرقی دریاؤں کا پانی بھی استعمال میں لاتا ہے۔ پاکستان کو مشرقی دریا خصوصا راوی سے 20 لاکھ ایکڑ فیٹ پانی بھارت سے ملتا ہے جس کو بھارت روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پانی کو روکنے کے لیے بھارت دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی پراجیکٹ، اوجھ ڈیم اور اوجھ پر ہی راوی بیاس لنک پر کام کر رہا ہے جس سے پاکستان کو پانی کی رسائی متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے سندھ طاس معاہدے کی اہمیت
زرعی ملک ہونے کے حوالے سے پاکستان کی زراعت مغربی دریاؤں پر منحصر ہے۔ چونکہ یہ دریا بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہو کر گزرتے ہیں اس لیے پاکستان کے لیے اس پانی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
لیکن سندھ طاس معاہدہ موجود ہونے کی وجہ سے بھارت کے لیے ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ وہ پاکستان کے حصے کا پانی روک سکے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے پاس چارہ جوئی کے لیے متعدد عالمی فورم موجود ہیں۔