میرا جی اور وزیر اعظم عمران خان دونوں نے پچھلے ہفتے اس آفت زدہ قوم کے دل کے درد دور کرنے کے لیے کچھ روحانی ٹوٹکے بتائے۔ اداکارہ میرا نے کہا کہ نماز تہجد ادا کریں، نماز کی پابندی کریں، حج اور عمرے پر جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے زندگی کی اونچ نیچ کو اللہ تعالی کی طرف سے امتحان سے تشبیہ دی اور فرمایا کہ اس فانی دنیا میں حقیقی خوشی کا کوئی وجود نہیں۔
میرا جی نے تلقین کی کہ اللہ تعالی سے معافی مانگ کر اپنے گناہ بخشوا لینے چاہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ زندگی کی مشکلات آسمان سے ایک اشارہ ہوتا ہے۔ میرا جی جو ایک فیشن شو میں اپنی والدہ شفقت بیگم کے ہمراہ جلوہ گر ہوئی تھیں، اخباری اطلاعات کے مطابق وہ بس توبہ کی باتیں کرتی رہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ہنر مند پاکستان کی ابتدائی تقریب سے خطاب فرما رہے تھے جس کے دوران انہوں نے روحانی ہدایات کے زمرے میں ایک نادر مشورے کا یہ کہہ کر اضافہ کیا کہ جو سکون کی زندگی ہے وہ صرف قبر میں ہی ہوتی ہے۔
میرا جی نے یہ مانا کہ چوں کہ اب ان کو فلمیں نہیں ملتی لہذا زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بہرحال حالات کے ہاتھوں پٹنے والی عوام کو یہ کہہ کر امید دلوائی کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ میرا جی اور عمران خان دونوں نے 2020 کو بہتری کا سال بنانے کے لیے توبہ، عبادت، استقامت اور گناہوں سے معافی کی طلبی کو لازم قرار دیا۔
اداکارہ میرا اور وزیر اعظم عمران خان کے افکار میں یہ مماثلت اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ دونوں بھرپور دنیاوی زندگی گزارنے اور اس کے جلووں سے مستفید ہونے کے بعد خود کو دانش مندی کے اس نکتے پر پاتے ہیں جہاں سے وہ ذاتی و قومی زندگی کی بہترین راہ متعین کرنے کے لیے سنہرے اصول متعین کر سکیں۔ لیکن چوں کہ دونوں کے معاشرے میں موجودہ رتبے مختلف ہیں لہذا ان ہدایات کا اثر اور ان کی پہنچ مختلف ہو گی۔
میرا جی شاید فلمی دنیا میں تبلیغ کو حتمی طور پر اپنا لیں اور چند ایک زندگیوں کو تبدیل کر کے اپنے لیے شاندار آخرت کا بندوبست کر سکیں۔ عمران خان کے چیلینجز اس سے کافی مختلف اور بڑے ہیں۔ قوم کو سکون کی تلاش میں قبر میں اترنے تک کا انتظار کرنے کا مشورہ اپنی جگہ پر لیکن اس زندگی کے عذاب اگر وہ بطور حکمران کم نہ کر پائے تو ان کا غیر مادی دنیا کے بارے میں طرز فکر اور اس سے نکلے والے مقدس خیالات شاید زیادہ متاثر کن ثابت نہ ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس بھٹکی ہوئی گمراہ قوم کو پاکیزہ اور ارفع بنانا چاہتے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ میرا جی کی طرح انہوں نے خاص قلبی احساسات کے ذریعے مقصد حیات کا وہ بلند مفہوم نکال لیا ہو جو روٹی، کپڑا اور مکان کے پیچھے بھاگنے والے کمزور اعتقاد کے عوام پر آشکارہ نہ ہوا ہو۔ مگر کیا کریں سیاسی قیادت حاضرات پر گرفت کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے اداکارائیں اپنے شعبے میں اداکاری میں کہنہ مشق ہونے کے باعث نام بناتی ہیں نہ کہ مناجات و عبادات کے ذریعے۔
حالت یہ ہے کہ عوام کو سکون کا ایک لمحہ میسر نہیں۔ جس معاشی واردات کے بارے میں آزاد تجزیہ نگار، پڑھے لکھے صحافی، سمجھدار معاشی ماہرین شروع دن سے واویلا مچا رہے تھے وہ اب ہر رپورٹ کا حصہ بن گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کو اس مسند پر بیٹھانے والوں نے کئی مہینے ملک کی معاشی صورت حال پر تنقید کرنے والوں کو گالیاں نکلوا کر گزار دیے۔ کسی کو لفافہ کہا، کسی کو پٹواری۔ اسحاق ڈار کو بھگوڑا اور ننگ وطن قرار دیا۔
معاشی ماہرین کے انتباہ کو رد کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ ان عقل کے پیدل لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ ہم نے ملک کو کیا سے کیا بنا دینا ہے۔ لیکن اب تو بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی وہی کچھ کہنے لگ گئے ہیں جو پاکستان میں موجود نقادوں پر ہمیشہ سے عیاں تھا۔ ورلڈ بینک کی پچھلے ہفتے جاری کردہ رپورٹ بدترین پیشن گوئیوں کے ساتھ ان تمام گھمبیر ملکی معاشی مسائل کا احاطہ کرتی ہے جن کے بارے میں کہیں پر کوئی بامقصد بحث ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح پاکستان کی معیشت 2019-20 میں 4.2 فیصد شرح ترقی پر آ کھڑی ہوئی ہے اور اگلے دو سالوں میں تمام تر کاوش کے باوجود 3 اور 3.9 فیصد میں پھنسی رہے گی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ نے پاکستان کی معیشت کے بارے میں جو لفظ استعمال کیا ہے اس کا اردو ترجمہ، نقاہت، شدید کمزوری، گلنا، ناطاقتی، بےحالی، نڈھالی وغیرہ ہیں۔ یہ اعدادو شمار ریکارڈ توڑ، سرپھوڑ اور ہوشربا قیمتوں کے اضافے، بشمول لاکھوں کی بے روزگاری اور ٹیکسوں کی بھرمار کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو آپ کو کچھ سمجھ آ جائے گی کہ عمران خان سکون کے لیے قبر کیوں تجویز کر رہے ہیں۔
حکومتی امور سے تمام تر بےاعتناہی برتنے کے باوجود وہ کم از کم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی گردن کے گرد پھندہ مزید تنگ ہو گا۔ مگر چوں کہ تمام زیرک سیاستدانوں کی طرح حقائق کو نظریہ سیاسی ضرورت کے تحت حذف کرنے پر کمال رکھتے ہیں لہذا وہ ابھی بھی لاکھوں نوکریوں، مکانوں، خوشحالی اور معاشی خوشی کے بیانات مسلسل جاری کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معیشت کی مضمحل کیفیت صرف عام زندگیوں کا بیڑہ ہی غرق نہیں کر رہی بلکہ اس نے پاکستان کو ایک بین الاقوامی گداگر میں تبدیل کر دیا ہے جو قرضے پر قرضہ لے کر اپنی خود مختاری اور اہم خارجی و دفاعی امور پر فیصلہ سازی کے عمل کو رفتہ رفتہ گروی رکھ رہا ہے۔ اگر 4.2 فیصد پر ٹھہری معیشت میں سے آپ آبادی میں ہر سال دو فیصد اضافے کی شرح نکال لیں تو آپ کو علم ہو گا کہ اصل میں وہ تمام سال جب من و سلوا کے نزول کی داستانیں ہر سمت سے سنائی جا رہی تھیں اصل میں بدترین معاشی انحطاط اور جمود کا وقت تھا۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ کس طرح ہمارے برابر میں بنگلہ دیش جس کو ہم نے ہمیشہ تیسرے درجے کا ملک گردانا ہے، سات فیصد سے اوپر کی معاشی ترقی کے ہدف کو چھوتا رہے گا یعنی وہ خطہ اور وہ لوگ جن کو ایوب کے دور میں قد و قامت اور جسمانی خدوخال کے حوالے سے ہدف تحقیر بنایا جاتا تھا، خرگوش کی طرح چھلانگیں لگاتے آگے کو جا رہے ہیں اور ہم ایٹمی کھال سے بنے ہوئے کچھوے کی مانند معاشی ترقی کی راہ پر الٹے پڑے ہوئے ہیں۔
شاید یہ وجہ ہے کہ عمران خان کو آسمان سے آنے والے اشارے پہلے موصول ہو رہے ہیں۔ سر کے بل کھڑے ہوں تو نیلی چھتری سے قربت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ معیشت کی بدترین سست روی اور آنے والے سالوں سے متعلق ناخوش گوار پشین گوئیاں دفاعی معاملات پر بھی گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ جب قرضہ دینے والے طاقتور ممالک یہ جان لیں کہ اگلے کم از کم تین سال یہ ملک ان کی امداد کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے پر مجبور ہے تو وہ ہمیں اس رسی سے باندھ کر لٹکانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
بھارت بھی ہماری معاشی کمزوری کو بھانپتے ہوئے اپنا دباؤ بڑھائے گا اور پھر ایک خاص حد سے زیادہ دیپکا پادوکون بھی مددگار ثابت نہ ہوں گی۔ بلوچستان سمیت دوسرے علاقوں میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات بدترین علاقائی غیریقینی کی صورت حال، معیشت کی واضح بدحالی کو ایک خطرناک قومی خطرے میں تبدیل کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے پاس تو سکون حاصل کرنے اور زندگی کے جنجالوں سے نجات دلوانے کا قبر کے علاوہ اور کوئی حل نہیں لیکن چوں کہ اس زندہ قوم کو زندہ رہنا ہے لہذا کچھ دنیاوی بندوبست بھی کرنا ہو گا۔
اس قوم کو روحانی معراج دلوانے سے پہلے کچھ جسمانی تسکین فراہم کرنی ہو گی۔ کفن دفن سے زیادہ اس وقت ملک کو کھانے پینے، کاروبار، نوکریوں، صحت اور مستقبل کے بارے میں اعتماد کی ضرورت ہے۔ قبر پر نظر رکھنے والے وزیر اعظم یہ سب کچھ کیسے فراہم کریں گے؟ اس کا جواب پاکستان میں کسی کے پاس نہیں۔ ہو سکتا ہے اگلے بیان میں میرا جی اس پر قوم کی رہنمائی کر پائیں۔