بھارت نے ’سرجیکل سٹرائیک‘ کر کے شاید دیکھ لیا تھا کہ پاکستان کیسا ردعمل ظاہر کرے گا۔ اس وقت تو حملہ شاید چھوٹے مقامی سطح پر تھا تو ’کچھ ایسا نہیں ہوا‘ کا سہارا کارآمد ثابت ہوا۔ لیکن اس مرتبہ تو بھارتی طیارے ناصرف متنازعہ کشمیر بلکہ پراپر پاکستان کے خیبرپختونخوا صوبے کے بالاکوٹ علاقے تک آن پہنچے۔ کوئی کیمپ تباہ ہوا یا نہیں بعد کی بات ہے، اصل تشویش ’دشمن‘ کے طیاروں کا ملک کی فضائی حدود میں داخل ہونا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے یہ کتنا بڑا چیلنج ہے؟ اور اس سے پاکستان کیسے نمٹے گا؟ ان کے پاس آپشن کیا ہیں؟
پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پچھلے دس سالوں میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی واضح دھمکیوں کہ سرحد پار کرنا ریڈ لائن کو کراس کرنا تصور کیا جائے گا، امریکی فوج نے دو مرتبہ اس کا بلکل خیال نہیں رکھا۔ ملک کی مغربی سرحد پر پہلے پرانے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں سلالہ کے مقام پر امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایک پاکستانی چوکی پر حملہ کرکے 11 پاکستانی سپاہیوں کو ہلاک کیا تھا۔
پاکستان نے امریکی معذرت تک نیٹو افواج کی افغانستان رسد کئی ماہ تک روکے رکھی۔ دوسری مرتبہ امریکہ نے ہی ایبٹ آباد جیسے بڑے شہر پر حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کو مارنے میں کامیاب ہوا۔ اس پر بھی احتجاج اور اپنی وضاحتوں کے علاوہ پاکستان کچھ زیادہ نہیں کر سکا۔
بھارت کے ساتھ تاہم صورتحال یکسر مختلف ہے۔ پاکستان سکیورٹی فورسز آج بھی اسے پاکستان کا ’دشمن نمبر ایک‘ مانتی ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ اس کی جانب سے اتنا بڑا حملہ نظر انداز ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کے بعد مشرق سے بھی سرحد کی خلاف ورزی آسانی سے ہضم نہیں ہوگی۔ وہ کیا سبط علی صبا نے کہا:
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
شاید عمران سرکار کے لیے یہی وقت ہے کچھ ایسا کرکے دنیا کو دیکھانا کہ آخر وہ ایک ملک ہے جس کی کوئی عزت بھی ہے، اور ملک سے زیادہ شاید یہ پاکستانی فوج کے وقار کا بھی معاملہ ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کا بیان کافی تشویش کا باعث ہے کہ وہ ’جواب کا حق رکھتا ہے اور اپنی پسند کے وقت اور مقام پر جواب دے گا۔‘ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک جواب تو یقیناً پاکستان عسکری طریقے سے دے گا۔ وہ کیا کشمیر میں ہوگا یا کہیں اور ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تیاری یقیناً شروع کر دی گئی ہوگی۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس طلب کرنا جوکہ ملک کے جوہری اثاثوں کا انتظام سنبھالتی ہے کافی خطرناک اقدام ہے۔ جنگ کے مخالفین امید کر رہے ہیں کہ عمران خان اور کسی بات پر اپنی مشہور زمانہ ’یو ٹرن‘ لیں نہ لیں جنگ پر ضرور لے لیں۔ ان کا موقف ہے کہ جنگ کوئی پکنک نہیں جس پر اثرا کیا جائے۔ بھارت نے تاہم انہیں بند گلی میں گھیر لیا ہے۔ اب فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ وہ ’پلے ٹو دی گیلری‘ کرتے ہیں یا زیادہ مدبرانہ پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہہ دیا کہ ’جواب ضرور دیا جائے گا۔ اور یہ مختلف ہوگا۔‘
جنگی حکمت عملی کے علاوہ عمران خان نے سفارتی فرنٹ پر بھی کوششیں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کو شاہ محمود قریشی کی صورت میں ایک تجربہ کار وزیر خارجہ بھی دستیاب ہیں جو ایبٹ آباد حملے کے وقت بھی اسی عہدے پر فائز تھے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ عالمی رہنماؤں کو بھِی بھارت کی ’غیر ذمہ دارانہ‘ پالیسی کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔ یہی بہترین لائحہ عمل ہوسکتا ہے۔
تاہم بھارت کی جانب سے بالاکوٹ کارروائی سے قبل کتنے عالمی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا۔ اگر تو اس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ویلادمیر پیوٹن کی رضا شامل ہے تو پھر پاکستان کے پاس ایک چین ہی بچ جاتا ہے جس سے اسے کسی حمایت کی امید ہوگی۔ تاہم عام خیال یہی ہے کہ فوجی حملے کا روایتی مذمتی بیان شاید سب ہی دیں۔ بھارت تو کب سے پاکستان کو سفارتی تنہائی کی کوشش کر رہا ہے۔
عمران خان سے بڑھ کر کئی لوگوں کا ماننا ہے اب سوال ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا کیا ہوگا؟ اس ڈاکٹرائن کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ علاقائی امن کے داعی قرار دیے گئے۔ اس پالیسی کے تحت وہ بھارت کے ساتھ مسائل کو ایک جانب رکھ کر اچھے تعلقات کی کوشش کریں گے۔ اب کیا باجوہ ڈاکٹرائن قصہ پارینہ بن جائے گا؟
جنگی اور سفارتی محاذوں پر جو بھی ہو، اصل تشویش کی بات عمران خان اور عوام کے لیے ملکی خراب معاشی صورتحال ہے۔ کیا اس جنگی جنون سے معیشت مزید بدتر ہونے کی صورت میں عمران خان کے پاس کیا آپشنز ہیں۔ کیا یہ ملک جنگ کا بوجھ برداشت کرسکتا ہے؟ آج پارلیمان میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ دونوں جانب سے بیانات سے نہیں لگتا ہے کہ حالات میں بہتری جلد آئے گی۔ دنیا کی طاقتوں کی خاموشی بھی ناقابل فہم ہے۔