ٹی ٹی پی کمانڈر حفیظ اللہ، جن کے سر پر کروڑ روپے کا انعام تھا

ٹی ٹی پی کے کمانڈر حفیظ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی اہلکاروں اور پاکستانی فوج پر حملوں میں ملوث تھے۔

27 اپریل 2009 کو دیر میں ایک فوجی چوکی (فائل فوٹو اے ایف پی)

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے تصدیق کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع دیر لوئر میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈر حفیظ اللہ کو ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں مارا گیا ہے۔ 

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے میڈیا کو جاری بیان میں بتایا کہ حفیظ اللہ سمیت دو عسکریت پسندوں کو سمیت لوئر دیر کے تیمرگرہ کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مار دیا گیا ہے۔ 

لوئر دیر پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن گذشتہ روز (10 اپریل) کی شام سدو شیکولئی کے علاقے میں کیا گیا۔ 

پولیس عہدیدار نے بتایا کہ آپریشن کے بعد لاشوں کو تحویل میں لیا گیا اور بعد میں جنگجو کے نام کی تصدیق حفیظ اللہ کوچوان کے نام سے ہوئی ہے جو کالعدم ٹی ٹی پی کے ملاکنڈ ڈویژن میں کمانڈر تھے۔

پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے انٹر سروس پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بھی اس کارروائی کے بارے میں جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے مارے جانے والے جنگجو حفیظ اللہ کی سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی تھی۔

آئی ایس پی کے مطابق حفیظ اللہ سکیورٹی فورسز اور عام سویلینز کے خلاف مختلف کارروائیوں میں ملوث تھے۔

حفیظ اللہ کوچوان کون تھے؟

حفیظ اللہ کوچوان کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے اہم کمانڈروں میں شامل تھے جو 2008 اور 2011 کے درمیان دیر اور باجوڑ کے علاقوں میں مختلف کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ 

ٹی ٹی پی کی مرکزی تنظیم نے 2023 میں مختلف عہدیداروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں حفیظ اللہ کوچوان کو مردان کے لیے مختلف کارروائیوں کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

کوچوان کا تعلق لوئر دیر کے علاقے نہاگ درہ سے تھا اور 2023 میں پاکستانی حکومت کا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی کے مرکزی تنظیم سے مذاکرات پر ناراض بھی تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے اکتوبر 2022 میں لوئر دیر میں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت پر حملے کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس حملے میں ٹی ٹی پی کے ناراض دھڑے حفیظ اللہ مذاکراتی دور کے دوران مرکزی ٹی ٹی پی کی جانب سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس دوران بھی حفیظ اللہ گروپ جانب سے کارروائیاں ہوتی رہی۔ 

شدت پسند کارروئیوں کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے والے تنظیم ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق حفیظ اللہ کے دھڑے نے فروری 2010 میں تین امریکی سکیورٹی اہلکاروں کو بھی لوئر دیر کے علاقے شاہی کوٹو میں ایک دھماکے میں قتل کیا تھا۔ 

اس وقت پاکستانی حکام کے مطابق امریکی سکیورٹی اہلکار ایف سی کے نوجوانوں کو تربیت کی غرض سے جا رہے تھے  اور اس دوران ایک سکول کے قریب ان پر دھماکہ کیا گیا تھا جس میں چار سکول کے بچے سمیت نو افراد جان سے گئے تھے۔

اس دھماکے کی ذمہ داری اس وقت ٹی ٹی پی کے ترجمان اعظم طارق نے قبول کی تھی جبکہ حفیظ اللہ کوچوان گروہ نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ امریکی اہلکار امریکی تنظیم بلیک واٹر کے اہلکار تھے۔ 

یاد رہے کہ 2010 میں بھی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں حفیظ اللہ کی ایک ڈرون حملے میں مارے جانے کی خبر آئی تھی اور پاکستانی میڈیا میں اس کی خبریں بھی شائع ہوئی تھیں۔ 

امریکہ کے غیر سرکاری تحقیقی جریدے میں 2011 میں شائع ہونے والے ضیاء الرحمان کے ایک مضمون کے مطابق حفیظ اللہ کوچوان جنوری 2011 میں عوامی نیشنل پارٹی کے اس وقت کے سینئٹر زاہد خان (حال رکن پاکستان مسلم لیگ ن) پر حملے میں ملوث تھے۔ 

اس مضمون کے مطابق زاہد خان کے حجرے پر حملے کی تفتیش کے دوران لوئر دیر کے خال کے علاقے سے حفیظ اللہ کوچوان کے دو رشتہ دار بھی گرفتار کیے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان