پاکستان کے قبائلی علاقوں کے رہائشیوں نے بھارت کے خلاف ممکنہ جنگ کے پیش نظر رضاکارانہ طور پر اپنے نام لکھوانے شروع کر دیے ہیں۔
اس حوالے سے لنڈی کوتل بازار میں جمعرات کو 28 فروری سے ایک رجسٹریشن کیمپ لگایا گیا ہے، جو تین روز تک جاری رہے گا۔
یہ کیمپ خیبر ایجنسی کے رہائشی 52 سالہ شاکر اللہ آفریدی نے خود اپنی طرف سے لگایا ہے۔ شاکراللہ کیمپ لگنے ایک گھنٹے کے اندر، اندر 1800 افراد نے نام درج کروائے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شاکراللہ نے بتایا کہ ’یہ ہمارا اپنا ملک ہے اور ہم ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ مجھے تمام قبائلی علاقوں سے کال موصول ہو رہی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام بھی درج کیے جائیں۔ یہی نہیں بلکہ افغان مہاجر بھی جنگ میں حصہ لینے کے لیے نام رجسٹر کرانے آر ہے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں ایسا کوئی کیمپ نہیں لگایا گیا، بلکہ وہاں سے تو جنگ نہ کرنے کی آوازیں آ رہی ہیں اور آپ لڑنےمرنے کی باتیں کر رہے ہیں؟ تو اس کے جواب میں شاکر اللہ کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں جی، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ وطن ماں کی طرح ہوتا ہے۔ میں ایک ٹرانسپورٹر ہوں اور میرا اکثر پنجاب جانا ہوتا ہے۔ وہاں تو کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان ہے کس چیز کا نام۔ یہ تو ہم ہیں کہ جب بھی اس ملک پر سخت وقت آیا ہم سب سے آگے رہے ہیں۔ یہ
کیمپ ہم نے اس غرض سے لگایا ہے کہ اگر زمینی امداد کی ضرورت پڑی تو لسٹ پہلے سے تیار ہوگی۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’قبائلیوں کو تو آج تک سرے سے کسی نے پاکستان کا حصہ تسلیم ہی نہیں کیا۔ ہمارے ساتھ زیادتیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن جب ملک و قوم پر سخت وقت آتا ہے تو ہم تلخ باتیں یاد نہیں کرتے۔ کیوں کہ اگر ملک کو کچھ ہوا تو سارے لوگ یتیم ہو جائیں گے۔‘
’میرے پاس اس وقت تمام قبیلوں آفریدی، شینواری، شلمانی، زخہ خیل اور دوسرے لوگ آ رہے ہیں۔ خود میرے بیٹے اور بھائی بھی اس جنگ میں شامل ہوں گے۔‘
شاکر اللہ کے برعکس بعض پشتون سمجھتے ہیں کہ جو پشتون جنگ میں حصہ لینے کی باتیں کر رہے ہیں وہ نا سمجھ ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول پشتونوں کو صرف استعمال کیا جاتا ہے۔
ایمل خان جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں، پاکستان بھارت جنگ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے،’پہلے فوج اور پھر پنجابی اور سندھی اس جنگ کو لڑیں۔ پشتون ہی کیوں قربانی دیں۔ پشتون پہلے ہی جنگوں میں کافی تکلیفیں سہہ چکے ہیں۔‘
ایک پشتون نوجوان سلیمان یوسفزئی نے بھی قدرے تفصیل سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پشتون دراصل قیام پاکستان سے لے کر آج تک خود کو محب وطن ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاکہ نہ صرف ان کو تسلیم کیا جائے بلکہ ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو روک دیا جائے۔‘
سلیمان یوسفزئی نے مزید بتایا کہ ’پاکستان میں دیگر اقوام کی نسبت پشتون خصوصاً قبائل مشکل زندگی جی رہے ہیں۔ ایک طرف وہ دہشتگردی کا ایندھن بن رہے ہیں۔ تو دوسری طرف مین سٹریم میڈیا میں نہ صرف پشتونوں کی حب الوطنی مشکوک کر کے رکھ دی گئی ہے بلکہ ان کو جنگوں میں استعمال کرنے کی خاطر ان کے نام کے ساتھ بڑے بڑے جھوٹے القابات لگا کر انہیں جھوٹے احساس تفاخر میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ اکثریت پشتونوں کی ان پڑھ و کم تعلیم یافتہ ہے لہذا نقصان اٹھاتے ہیں۔‘
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئر ایاز خان نے پشتونوں کے جنگوں میں حصہ لینے کے حوالے سے تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ 1948 میں جب پاکستان کے پاس افرادی قوت کی کمی تھی اور کشمیر کے معاملے نے سر اٹھایا تو خیبر پختونخوا کے نواب آف دیر کے یوسفزئی سے لے کر باجوڑ کے قبائل تک اور مہمند سے حاجی ترنگزئی کے بیٹے باچا گل سے لے کر آفریدی، شینواری، وزیر، محسود اور افغانستان میں خلجی قوم تک سب نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا۔
’صوابی کے جھنڈا گاؤں کے جنرل شیر خان اس وقت ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے ان کی سربراہی میں یہ لشکر کشمیر میں داخل ہوا، اور نہایت اچھی کارکردگی دکھائی۔ بارہ مولا پر قبضہ کیا اور سری نگر کے ائر فیلڈ تک پہنچ گئے۔ لیکن ان میں سے جو لوگ زخمی اور ہلاک ہوئے ان کی کسی نے خبر نہیں لی۔ ان خاندانوں کو تاحال کو کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح 1965 اور 1971 کی جنگوں میں زیادہ تر پشتونوں نے ہی خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا، لیکن ان کے لڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
’میں سمجھتا ہوں کہ اب تو حالات بہت بدل گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے، پاکستان کو میدان جنگ میں پشتونوں کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ قبائل جذبات سے باہر نکل آئیں۔‘