اسلامی تعاون تنطیم کی کونسل برائے وزرائے خارجہ کے 46ویں اجلاس میں تنطیم کی تاریخ میں پہلی دفعہ مسلمان ممالک کے پرچموں کے بیچ بھارت کا جھنڈہ نظر آیا۔ نہ صرف جھنڈا نظر آیا بلکہ بھارتی وزیر خارجہ سوشما سوراج نے تنظیم میں بطور اعزازی مہمان شرکت کی اور شرکا سے خطاب بھی کیا۔
بھارت کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت میزبان ملک متحدہ عرب امارات کی جانب سے ان کے وزیر خارجہ کی طرف سے دی گئی تھی۔
اسلامی تعاون تنظیم ان ممالک کی تنظیم کی ہے جہاں پر آبادی کی اکثریت مسلمان افراد کی ہے۔ تنطیم میں کل 57 ممالک ہے۔
پاکستان کا ردعمل
بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت پر پاکستان نے احتجاجاً اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کیونکہ بھارتی وزیر خارجہ اس اجلاس میں شرکت کر رہی ہیں اس لیے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نہ تو تنطیم کا رکن ہے اور نہ مبصر اور اگر بھارت کو مبصر کا درجہ دینے کی کوشش کی گئی تو پاکستان اس کی مخالفت کرے گا۔
شاہ محمود قریشی نے پارلیمان کو بتایا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کو درخواست کی تھی کہ بھارتی وزیر خارجہ کو مت بلایا جائے مگر متحدہ عرب امارات نے جواب دیا کہ بھارت کو دعوت نامہ پلوامہ حملے سے پہلے دیا گیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان نے متحدہ عرب امارات سے گزارش کی تھی کہ یا تو بھارت کو دعوت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے یا اجلاس کو ملتوی کیا جائے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو او آئی سی اجلاس میں شرکت کر کے اپنا موقف پیش کرنا چاہیے تھا۔
بھارت، اسلامی تعاون تنظیم اور ماضی
بھارت پچھلے 50 سالوں سے اسلامی تعاون تنظیم میں شمولیت کی کوشش کر رہا ہے مگر ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو پایا۔ جبکہ ان 50 سالوں میں کئی بار اسلامی تعاون تنظیم نے کشمیر میں ہونے والے واقعات پر تشویش اور کشمیر کے حق خود ارادیت پر بیانات جاری کیے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کا قیام 1969 میں ہوا اور اس وقت سعودی عرب کے بادشاہ نے بھارت کو شمولیت کی دعوت دی مگر پاکستان کی مخالفت کے بعد بھارتی وفد کو آخری وقت پر واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھارت کو مبصر بننے کی دعوت دی گئی تھی مگر بھارت نے وفد کی واپسی کے بعد مبصر بننے سے انکار کر دیا تھا۔
2003 میں قطر نے بھارت کو تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی مگر بھارت نے شرکت سے انکار کر دیا تھا کیونکہ تنطیم کے اراکین میں بھارتی شرکت پر نہ تو اتفاق تھا اور نہ ہی بھارت کو باضابطہ شرکت نامہ دیا گیا تھا دیا گیا تھا اور تنطیم کے اراکین میں اتفاق بھی نہیں تھا۔
گذشتہ سال بنگلہ دیش نے بھارت کو مبصر کی حیثیت دینے کی تجویز دی تھی مگر پاکستان نے تجویز کی مخالفت کی تھی۔
بالآخر اس بار بھارت اسلامی تعاون تنظیم میں بحیثیت اعزازی مہمان کو طور پر شرکت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس بار بھارت کا جھنڈہ باقی 57 مسلمان ممالک کے بیچ میں لگایا گیا ہے۔
بھارت کی بطور اعزازی مہمان شرکت اس لیے بھی اہم ہے کہ تنطیم کے چارٹر میں 'اعزازی مہمان' کا کوئی ذکر نہیں ہے اور بھارت کی شرکت کے بعد پاکستان نے اس سال اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کی رکنیت کون حاصل کرسکتا ہے؟
تنظیم کے اجلاس میں دو مختلف قسم کی حیثیت کے ممالک اور تنظیمیں حصہ لے سکتی ہیں۔ ایک تو وہ جو بنیادی رکن ہیں اور دوسرے جن کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔
چارٹر کے مطابق اقوام متحدہ کے وہ اراکین ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ تنظیم کو شمولیت کی درخواست دیتے ہیں جس کے بعد تمام موجودہ اراکین کے اتفاق کے بعد شمولیت کی اجازت دی جاتی ہے۔
کسی بھی ملک یا تنظیم کے لیے مبصر کا عہدہ پانے کے لیے تنظیم کی کونسل برائے وزرائے خارجہ کا متفقہ طور پر اس کی شمولیت پر راضی ہونا ضروری ہے۔