امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سٹیٹ آف دا یونین کے خطاب کی تقریب کے دوران بھی ڈیموکریٹس کی جانب سے اپنے مواخذے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نہ بھول سکے۔
ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان کشیدگی کی عکاسی اس بات سے ہوئی جب امریکی ایوان میں منگل کو صدر ٹرمپ کے سٹیٹ آف دا یونین خطاب سے قبل ایوان نمائندگان کی سپیکر نینی پیلوسی نے ان کی جانب مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تاہم وہ آگے بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ اس کے علاوہ صدر کی تقریر کے بعد سپیکر نینسی نے ان کی تقریر کے مسودے کو پھاڑ کر ان سے اختلاف رائے کا اظہار بھی کیا۔
اپنی 80 منٹ کی تقریر میں صدر ٹرمپ نے اپنے مواخذے کے عمل کا تو کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن ان کے رویے میں اس حوالے سے موجود ناپسندیدگی بہت واضح تھی۔
صدر ٹرمپ کی تقریر کے دوران ری پبلکن ارکان انہیں کھڑے ہو کر داد دیتے رہے جبکہ ڈیموکریٹک ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ری پبلکن ارکان کا اکثریتی سینیٹ بدھ کو صدر ٹرمپ کو ان کے خلاف عائد اختیارات کے ناجائز استعمال اور کانگریس کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات سے بری کر دے گا۔
خطاب سے قبل نینسی پیلوسی کو اپنی تقریر کا مسودہ تھماتے وقت صدر ٹرمپ نے ان سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ تقریر کے اختتام پر نینسی پیلوسی اپنی نشست سے کھڑی ہوئیں اور انہوں نے صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے جانے والے مسودے کی کاپی کو پھاڑ ڈالا۔
سیشن کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نینسی پیلوسی کا کہنا تھا: ’ایسا کرنا اس سے متبادل کرنے کے مقابلے میں خوش اخلاقی تھا۔‘ جبکہ صدر ٹرمپ کی کمپین کی ترجمان کیلی میک اینینی نے نینسی پیلوسی کے بارے میں کہا: ’ان کی صدر ٹرمپ کے لیے نفرت ان کے رویے سے ظاہر ہوتی ہے۔‘
تقریب کے ختم ہونے پر نینسی پیلوسی نے اپنی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ کی جانب مصافحے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھانے کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’ڈیموکریٹس عوام کے لیے کام کرنے کے لیے کبھی بھی دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے نہیں رکیں گے۔ ہم مشترکہ مفاد کے لیے مل کر کام کریں گے لیکن جہاں ایسا نہیں ہو گا ہم اپنے موقف پر کھڑے رہیں گے۔‘
Democrats will never stop extending the hand of friendship to get the job done #ForThePeople. We will work to find common ground where we can, but will stand our ground where we cannot. #SOTU pic.twitter.com/ELJqR9q4xD
— Nancy Pelosi (@SpeakerPelosi) February 5, 2020
اپنی تقریر کے دوران امریکی صدر نے ایک بار پھر افغانستان سے امریکی فوج نکالنے کے اپنے موقف کا اعادہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں ’لاکھوں‘ افراد کو قتل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ کی تقریر میں خارجہ پالیسی سے متعلق چند نکات میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا نکتہ شامل تھا۔ امریکی صدر نے کانگریس کے مشترکہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’میں افغانستان میں لاکھوں افراد کو قتل کرنے کا خواہش مند نہیں ہوں جن میں سے بہت سے معصوم ہیں۔‘
انہوں نے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کی بھی حمایت کی۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: ’ہم دوسری اقوام کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کام نہیں کر سکتے۔ ہمارے فوجی جنگ لڑنے والے جنگجو ہیں جو دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔ وہ یا جیتنے کے لیے لڑنا چاہیں گے یا نہیں لڑیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم امریکہ کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے اور اپنے فوجیوں کو واپس لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے اس امریکی حملے کی تعریف کی جس میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت ہوئے اور امریکہ کی جانب سے ایرانی حکومت پر ڈالے جانے والے دباؤ کی بھی نشاندہی کی۔
ان کا کہنا تھا: ’ہماری بھرپور پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت بہت خراب ہے۔ ہم اس کو ٹھیک کرنے کے لیے ان کی مدد کر سکتے ہیں لیکن وہ اس بارے میں مدد طلب کرنے کے حوالے سے بہت مغرور یا بے وقوف ہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں وینزویلا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر نکولس مدورو پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے نکولس مدورو کے حریف جوان گوائڈو بھی اپنی تقریر سننے کے لیے مدعو کیا تھا۔