امریکی پارلیمان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو بائیڈن کے خلاف ان کے مبینہ بیان پر مواخذے کے لیے تیاریاں تیز ہو گئی ہیں۔
صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین حکومت پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں ان کے سب سے بڑے حریف جو بائیڈن کے متعلق تحقیقات کریں ورنہ ان کی امداد روک دی جائے گی۔
پیر کو صدر ٹرمپ نے تصدیق کی تھی کہ انھوں نے رواں سال جولائی میں یوکرین کے صدر کو فون کر کے ڈیمو کریٹ پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار بائیڈن اور ان کے بیٹے سے متعلق معاملہ اٹھایا تھا۔
نیویارک میں صدر ٹرمپ نے ایک غیر معمولی دعوے کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس کا اختتام کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’اگر کسی ریپبلکن رہنما نے ایسا کام کیا ہوتا جو جو بائیڈن نے کیا ہے تو انہیں ابھی تک الیکڑک چیئر پر بیٹھا دیا ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر ٹرمپ کے اس اعتراف کے بعد ڈیموکریٹکس کی جانب سے کانگریس میں ان کے مواخذے کے مطالبات میں تیزی آنے لگی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے اپنی مخالفت ترک کر رہی ہیں جب کہ کئی ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ وہ صدر کے مواخذے کے لیے اہم نقطے پر پہنچ چکے ہیں۔
کانگریس میں ڈیموکریٹس کے نصف سے زیادہ ممبران نے عوامی طور پر صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ معتبر امریکی ویب سائٹ پولیٹیکو کے مطابق اس وقت 158 ڈیموکریٹ ارکان اس مواخذے کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ 76 ایسے ہیں جو اس کی حمایت نہیں کرتے۔
UPDATE: There are now 158 Dems in support of impeachment proceedings -- including new frontliners Delgado and Allred. https://t.co/3RIKRLxnic
— Kyle Cheney (@kyledcheney) September 24, 2019
بائیڈن پر الزام کیا ہے؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن پر کرپشن کا الزام ہے اور یہ سکینڈل امریکی سیاست میں اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ہنٹر بائیڈن نے یوکرین کی گیس کمپنی ’بریزما‘ میں اس وقت بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دیں جب ان کے والد امریکہ کے نائب صدر تھے۔
یوکرین کے پراسیکیوٹرز نے 2014 میں ٹیکسوں کی مشتبہ خلاف ورزیوں کی جانچ کرتے ہوئے گیس کمپنی کے خلاف فوجداری تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
2016 میں کیف کی ایک عدالت نے کمپنی کے صدر اور مالک کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل کو حکم دیا تھا کہ ان کا نام مطلوبہ فہرست سے ہٹا دیا جائے۔