افغان باشندوں کی واپسی: کس شعبے پر اثر پڑ سکتا ہے؟

پاکستان کی جانب سے غیر قانونی افغان تارکینِ وطن اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے پناہ گزینوں کی افغانستان بےدخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تارکین وطن کی واپسی سے پاکستان میں کون سے شعبہ جات زیادہ متاثر ہوں گے، جانیے انڈپینڈنٹ اردو کی اس رپورٹ میں۔

22 اپریل 2025 کو چمن میں پاکستان-افغانستان سرحد کے قریب ایک ہولڈنگ سینٹر کے باہر افغانستان بھیجے جانے والے افغان تارکین وطن اپنے سامان کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی حکومت کی جانب سے غیر قانونی افغان تارکینِ وطن اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے پناہ گزینوں کی افغانستان بےدخلی کا سلسلہ جاری ہے، جس سے خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے مختلف شعبے متاثر ہوں گے۔

پاکستان نے یکم اپریل سے غیر قانونی افغان تارکینِ وطن اور افغان سٹیزن کارڈ (2017 میں نادرا کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو دیا گیا ریزیڈنٹ کارڈ) رکھنے والوں کو بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

خیبر پختونخوا محکمہ داخلہ کے مطابق دوسرے مرحلے میں (یکم اپریل سے اب تک) خیبر پختونخوا سے 43 ہزار سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

اسی طرح محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2023 سے اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف بارڈرز کے ذریعے تقریباً پانچ لاکھ 43 ہزار افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

وفاقی مشیر داخلہ طلال چودھری کے مطابق نومبر 2023 سے ملک بھر سے آٹھ لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا ہے، جن میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا سے بھیجے گئے ہیں۔

افغان پناہ گزین اور مکانات کے کرائے

پاکستان میں سب سے زیادہ افغان پناہ گزین خیبر پختونخوا میں آباد ہیں، اور پشاور میں پراپرٹی ڈیلرز کے مطابق افغان پناہ گزینوں کے جانے سے کرایوں میں کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پشاور پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر سراج الحق یوسفزئی نے بتایا کہ ’ہماری یونین نے گذشتہ ہفتے پشاور کے تمام پراپرٹی ڈیلرز کو غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو کرائے کے مکانات سے نکالنے کی ہدایت جاری کی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سراج الحق نے بتایا کہ ’اس سلسلے میں قانونی اسناد (یعنی پروف آف ریزیڈنس کارڈ جو رواں سال جون تک قابلِ استعمال ہے) رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کو مکانات کرائے پر دیے جائیں گے اور باقی کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دیا جائے گا۔‘

کرایوں پر اثر کے حوالے سے سراج الحق نے بتایا، ’بے دخلی کا سلسلہ شروع ہونے کو ابھی ایک مہینہ مکمل نہیں ہوا، اور جب ایک مہینہ مکمل ہو جائے گا تو کرایوں پر اثر کا اندازہ لگایا جائے گا۔‘

سراج الحق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اگر پشاور کی بات کی جائے تو حیات آباد سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں 30 سے 50 فیصد رہائشی افغان باشندے ہیں، جن میں زیادہ تر کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں، جبکہ بعض نے گھر خرید رکھے ہیں۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘

انہوں نے بتایا، ’ڈیمانڈ میں اضافے کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور اب جب پہلے مرحلے (2023) میں افغان باشندوں کے نکلنے کا عمل شروع ہوا، تو کرایوں میں واضح کمی دیکھی گئی تھی، جبکہ کرائے کے مکانات بھی خالی ہو گئے تھے۔‘

افغان پناہ گزینوں کی 80 کی دہائی میں آمد

افغانستان اور سوویت یونین کے مابین جنگ کے بعد جب لاکھوں افغان پناہ گزین افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئے تو پاکستان کے پاس ان کو رہائش دینے کا کوئی باقاعدہ منصوبہ موجود نہیں تھا۔

جب یہ پناہ گزین لاکھوں کی تعداد میں یہاں منتقل ہوئے تو اُس وقت جرنل آف ہیومینیٹیز، سوشل اینڈ مینیجمنٹ سائنسز میں شائع 2021 کے ایک مقالے کے مطابق، 80 کی دہائی میں پناہ گزین کیمپ نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شہری علاقوں اور مقامی آبادیوں میں کرائے کے مکانوں میں رہنے لگے۔

اس وقت سے اب تک افغان پناہ گزینوں کی بہت کم تعداد نے کیمپوں میں رہائش اختیار کی، جبکہ زیادہ تر نے مقامی آبادی کا رخ کیا، جن میں بڑی تعداد پشاور میں آباد ہے۔

پناہ گزین پشاور کے علاقے حیات آباد، بورڈ بازار، دانش آباد، افغان کالونی سمیت آس پاس کے علاقوں میں رہائش پذیر ہو گئے۔

کتنے افغان باشندے پاکستان میں آباد ہیں؟

یو این ایچ سی آر کے جون 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں، جن میں سات لاکھ کے قریب پشاور، تین لاکھ بلوچستان جبکہ باقی ملک کے دیگر شہروں میں مقیم ہیں۔

تاہم رجسٹرڈ کے علاوہ افغان سٹیزن کارڈ (یہ کارڈ 2017 میں نادرا کی جانب سے نئے آنے والے افغان پناہ گزینوں کو جاری کیا گیا تھا) رکھنے والے پناہ گزینوں کی تعداد چار لاکھ تک ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن کے پاس رہائشی اسناد موجود ہیں۔

پھل اور سبزیوں کے شعبے سے وابستہ افغان باشندے

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد افغان پناہ گزین غیر ہنر مند مزدور ہیں، جبکہ 20 فیصد چھوٹے یا بڑے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

اسی طرح آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پانچ فیصد ہنر مند ورکرز ہیں جو دستکاری، درزی، رنگ سازی، مکینک یا کسی دوسرے ہنر سے وابستہ ہیں، جبکہ 15 فیصد ایسے ہیں جو ہنر مند اور غیر ہنر مند دونوں شعبوں سے منسلک ہیں۔

آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ سے تین لاکھ تک بالغ افغان باشندوں میں 40 سے 50 فیصد پھل اور سبزیاں اگانے، سپلائی کرنے یا بیچنے سے وابستہ ہیں۔

ان میں سے بعض، رپورٹ کے مطابق، زمینیں اجارہ پر لے کر ان پر پھل اور سبزیاں اگاتے ہیں اور اسی سے منافع کماتے ہیں۔

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے، پشاور میں پھل فروش مومن خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے بہت سے جاننے والے افغان باشندے ہتھ ریڑیاں کھڑی کر کے کام کے لیے نہیں آ رہے۔ اس کا اثر مارکیٹ پر پڑا ہے کیونکہ اس سے سیل میں کمی آئی ہے اور پھل و سبزیوں کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھی گئی ہے، تاہم ابھی تک کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آئی ہے۔‘

شہد کا شعبہ

آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں اندازاً 27 ہزار شہد کی مکھیاں پالنے والوں میں تقریباً 18 ہزار افغان پناہ گزین ہیں، اور اس میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا میں اس صنعت سے وابستہ ہیں۔

یہ افغان پناہ گزین مکھیاں پالنے یا شہد بیچنے سے وابستہ ہیں، اور پشاور میں ترناب کے مقام پر شہد کی ایک بڑی منڈی ہے، جس سے بیرونِ دنیا میں بھی شہد برآمد کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر دکاندار افغان پناہ گزین ہیں۔

شہد کا کاروبار 1980 میں افغان پناہ گزینوں کی جانب سے اس وقت شروع ہوا جب یو این ایچ سی آر کی جانب سے انہیں شہد کی مکھیاں کاروبار کے لیے دی گئیں۔

پشاور کے ترناب شہد منڈی میں کاروبار سے وابستہ آل پاکستان بی کیپرز اینڈ ہنی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شیر زمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مارکیٹ میں 60 فیصد سے زائد تاجر افغان ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’انخلا کے بعد مارکیٹ میں بہت سے افغان پناہ گزینوں نے اپنی دکانیں بند کر دی ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ انہیں واپس بھیجا جائے گا۔‘

شیر زمان نے بتایا، ’دکانوں کی بندش سے خرید و فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی ہے، جس کا اثر شہد کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے، اور اب فی من قیمت 32 ہزار روپے سے کم ہو کر 17 ہزار روپے فی من ہو گئی ہے۔‘

شیر زمان کے مطابق اگر یہ افغان تاجر چلے جاتے ہیں تو اس خلا کو پر کرنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ شہد کے شعبے کو بچایا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان