پاکستان: مرد اکثریتی شعبے، پٹرول پمپس پر کام کرتی محنتی خواتین

اسلام آباد میں پیٹرول پمپ پر کام کرنے والی ثمیرہ نے کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے میں نے کبھی کام نہیں کیا تھا، نہ کبھی اجنبی لوگوں سے واسطہ رکھا تھا، اب میں روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے ڈیل کرتی ہوں، محنت میں کوئی عار نہیں ہے۔‘

ہلکے نیلے صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس اور نوزل کو مہارت سے تھامے، ثمیرہ بی بی نے گاڑی کے ٹینک میں ایندھن بھرا اور ڈرائیور کو مشین کی ریڈنگ چیک کرنے کا اشارہ دیا۔

پاکستان میں پٹرول پمپ روایتی طور پر مردوں کے زیرِ انتظام رہے ہیں، لیکن اب یہ شعبہ بھی خواتین کو مواقع دینے کی جانب راغب ہے اور اسی کے تحت کچھ پمپس پر خواتین کو بھی بطور اہلکار پیٹرول بھرنے پر مامور کیا جا رہا ہے۔

اس کی ایک واضح مثال گذشتہ برس لاہور کے جوہر ٹاؤن میں پاکستان کے پہلے خواتین پر مشتمل عملے کے پٹرول پمپ کا آغاز تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی اب سینکڑوں خواتین مرد عملے کے ساتھ ایندھن سٹیشنز پر کام کر رہی ہیں۔

اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر واقع پاکستان سٹیٹ آئل کے بیٹرول پمپ پر کام کرنے والی ثمیرہ، جو کہ پانچ بچوں کی والدہ ہیں، نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ نوکری ملنے کے بعد میں نے اپنے بچوں کا خود خیال رکھنا سیکھا اور اپنی زندگی کے تمام مسائل پر قابو پایا۔‘

نشے کے عادی شوہر سے برسوں شادی شدہ رہنے والی ثمیرہ کے لیے یہ نوکری زندگی بدل دینے والی ثابت ہوئی، جب رشتہ بگڑ گیا تو وہ مجبوراً اپنی بہن کے گھر منتقل ہو گئیں۔

ثمیرہ، جو صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک ہفتے میں چھ دن کام کرتی ہیں، نے بتایا: ’بہت سی مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ میرے پاس کوئی نوکری نہیں تھی اور میں اپنی بہن پر انحصار کر رہی تھی۔

’شروع میں بہت مسائل آئے، خاص طور پر جب کچھ گاہک کریڈٹ کارڈ واپس کرتے وقت ہمارے ہاتھ چھونے کی کوشش کرتے تھے، لیکن بروقت تنخواہ، سالانہ بونس، مفت طبی سہولیات اور بچوں کی پرورش و تعلیم کے لیے مالی خودمختاری نے ان تمام مشکلات کو قابلِ برداشت بنا دیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس سے پہلے میں نے کبھی کام نہیں کیا تھا۔ میں نے کبھی اجنبی لوگوں سے واسطہ بھی نہیں رکھا تھا، اب میں روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے ڈیل کرتی ہوں، محنت میں کوئی عارنہیں ہے۔‘

مثبت ردِعمل

پاکستان میں خواتین کی مجموعی لیبر فورس میں شمولیت کی شرح 25 فیصد ہے، جو کہ عالمی اور جنوبی ایشیائی اوسط سے کہیں کم ہے۔ اقوام متحدہ کی خواتین کے ادارے کے مطابق، لیبر فورس میں شامل زیادہ تر خواتین (67 فیصد) زرعی شعبے میں کام کرتی ہیں، جبکہ خدمات کے شعبے میں 16 فیصد اور مینوفیکچرنگ میں صرف 14 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں بھی ملازمت کی شرح کم ہے، جہاں صرف 25 فیصد خواتین یونیورسٹی ڈگری کے باوجود لیبر فورس کا حصہ ہیں۔

اس کم شرح کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سماجی روایات، تحفظات، نقل و حرکت کی کمی اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن ان چیلنجز کے باوجود، مزید خواتین اب باہر نکل رہی ہیں۔

پیٹرول پمپ پر کام کرنے والی ایک اور اہلکار ثنا نے بتایا کہ نوکری نے انہیں دنیا کا سامنا کرنے اور مختلف لوگوں سے ڈیل کرنے کا حوصلہ دیا، چاہے وہ لوگ خواتین کا عوامی مقامات پر کام کرنا ناپسند ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔

ثناء نے عرب نیوز کو بتایا: ’ہر قسم کے صارفین سٹیشن پر آتے ہیں، کچھ لوگ ہمارے کام کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اچھا ہے کہ ہم کھلی جگہ پر کام کر رہے ہیں بجائے کسی دفتر میں بند ہونے کے، جبکہ کچھ لوگ ہمیں مایوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کام خواتین کے لیے موزوں نہیں۔‘

ثنا نے مزید کہا کہ سٹیشن انتظامیہ بہت معاون ہے اور ایسے گاہکوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے جو مسائل پیدا کرتے ہیں یا بدتمیزی کرتے ہیں۔

رخسانہ بی بی، جو اسلام آباد کے ایف-8 سیکٹر میں پی ایس او سٹیشن پر کام کرتی ہیں، نے کہا کہ وہ نوکری پر خود کو ’محفوظ‘ محسوس کرتی ہیں کیونکہ تمام سٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اور محدود تعلیم یافتہ رخسانہ نے کہا کہ وہ صرف آمدنی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے گھر سے باہر نکلی ہیں۔

’میرے شوہر مزدور ہیں اور ان کی آمدنی سے گھر کے اخراجات اور بچوں کی تعلیم کا خرچ پورا نہیں ہوتا، اسی لیے میں نے نوکری کا فیصلہ کیا۔‘

پی ایس او اسلام آباد کے ڈپٹی ڈویژن مینیجر جہانزیب عباسی نے کہا کہ ’کمپنی نے کرونا وبا کے دوران مساوی مواقع فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر خواتین کو ملازمت دینا شروع کی۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں بہت مثبت ردعمل ملا،اب بہت سی خواتین چھ ماہ سے لے کر دو سال تک ہمارے ساتھ کام کر رہی ہیں، اور وہ اپنی ملازمت سے مطمئن اور خوش ہیں۔‘

صارفین میں سے ایک، اذکیٰ درانی کے لیے، پٹرول پمپوں پر خواتین کو اعتماد کے ساتھ کام کرتے دیکھنا ’خواتین کی خود مختاری اور سماجی تبدیلی کی علامت ہے۔‘

گاڑی میں پیٹرول بھرتی رخسانہ کو دیکھ کر انہوں نے کہا: ’جب بھی میں ان خواتین کو پٹرول پمپ پر کام کرتے دیکھتی ہوں، تو مجھے اپنا آپ بااختیار محسوس ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین