بھارت اور پاکستان میں گذشتہ 70 برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا دور آیا ہو گا جب دونوں میں صلح اور امن کی فضا برقرار رہی ہو مگر سال رواں کو 14 فروری کے پلوامہ حملے کے بعد دونوں ایٹمی ملکوں کی سرحدوں پر جو انتہائی تشویش ناک صورتحال پیدا ہوئی اس کا ذمےدار براہ راست بھارتی میڈیا کو ٹھہرایا جارہا ہے جس نے عوام میں جنگ کے لیے جنونی کیفیت پیدا کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور دونوں ملکوں کو تقریباً جنگ کے دہانے پر کھڑا کرا کے ہی دم لیا۔
اس بار بھارتی میڈیا کے جنونی کردار ادا کرنے کے بارے میں ملک کے بیشتر سیاسی اور سماجی حلقوں میں سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں جس کا براہ راست تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم آہنگ نظریاتی انتہاپسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یا آرآیس ایس سے بتایا جاتا ہے جس نے بھارتی میڈیا انڈسٹری اور سوشل میڈیا پر فرضی اکاؤنٹ کھول کر اس پر خاصا غلبہ حاصل کرکے اپنا مخصوص ایجنڈا چلانے کی ایک ملک گیر مہم شروع کی ہے۔
بقول ایک تجزیہ نگارجب 2014 میں بی جے پی کو پارلیمان میں نریندر مودی کی سربراہی میں اکثریت حاصل ہوئی تو سب سے پہلے پارٹی نے میڈیا کو اپنے کنٹرول میں لانے کا اہم کام کیا، پھر ملک کے تمام پالیسی ساز اداروں اور سکیورٹی میں آر ایس ایس نظریات کے حامل افسروں کو تعینات کیا گیا جس سے ملک گیر سطح پر ان کی مخصوص سوچ کو تقویت ملی اور ہندو انتہا پسندی کو عوام میں شدت سے پیدا کرنے میں آسانی پیدا ہو گئی۔
میڈیا کے بڑے بڑے ادارے اس وقت ہندو انتہا پسندوں کے کنٹرول میں تصور کے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلوامہ میں حالیہ خودکش حملے کے بعد میڈیا کو ملک میں جنونی کیفیت اور پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کی ہدایات دی گئی تھیں جس کا بقول تجزیہ نگار اس جنون کا فائدہ بی جے پی کو انتخابات میں ملنے کی توقع ہے. رام مندر بنانے کا ان کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوا جس کو انہوں نے پچھلے پارلیمانی انتخابات میں اہم ایجنڈا بنایا تھا۔
بی جے پی کے ہزاروں کارکنوں نے سوشل میڈیا کو پروپیگنڈا کا اہم ذریعہ بنایا ہے جبکہ اعتدال پسندوں کوچپ کرانے کے لے ٹرولنگ کا سلسہ بھی بڑے پیمانے پر جاری رکھا گیا ہے۔ جنونی کیفیت اور کٹر قوم پرستی کو ابھارنے کا جذبہ اتنا کام کر گیا کہ اعتدال پسند صحافی شیکھر گپتا، راجدیپ سردیسائی اور برکھا دت کو بھی حکومت کے حق میں ٹویٹس کرنا پڑیں۔
رسالے ’فارن میگزینُ‘ میں تجزیہ کرتے ہوئے وشیشنوی چندرشیکھر لکھتے ہیں: ’ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی پلوامہ حملے کے بعد چیخ رہے تھے کہ خون کا بدلہ خون سے لینا ہو گا۔ ہم مذمتی بیانات نہیں بلکہ بدلہ چاہتے ہیں، حتیٰ کہ مگ طیارے میں ہلاک ہونے والے فوجی کی اہلیہ کو اس وقت چپ کرا دیا گیا جب اس نے پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کی۔
اگلے دو ماہ میں بھارتی پارلیمان اور چند ریاستوں میں مقامی انتخابات ہو رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے راجھستان، مدھیہ پردیش اور ہندو بیلٹ کی کئی ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو توقع کے برخلاف شکست ملی جس کے بعد پارٹی میں خاصی تشویش پیدا ہوئی ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے سے رہ جائے گی کیونکہ حکمراں جماعت کی ناقص اقتصادی اور تجارتی کارکردگی کو اپوزیشن پارٹیوں نے ایک بڑا انتخابی موضوع بنایا ہے۔
نریندر مودی کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فیصلے سے ملک کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور چھوٹی صنعتیں تقریباً ٹھپ ہو چکی ہیں۔ افراط زر کی شرح بڑھ رہی ہے اور ملازمتیں فراہم کرنے کے مودی کے وعدے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ پھر جنگی جہاز رافیل کا سودا مودی حکومت کے لیے خاصا مہنگا پڑ رہا ہے۔
معیشت کی بد حالی، مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ تشدد اور سیکیولرازم کے علمبرداروں کے خلاف جھوٹے کیس دائر کرنے کے واقعات سے ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس کے خلاف عوامی سطح پر کچھ آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں، ان پر پردہ ڈالنے کے لیے اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے بی جے پی کا حامی میڈیا ملک میں کشمیریوں کو ہراساں کرنے، پاکستان کو سبق سکھانے اور جنگی جذبات ابھارنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو حال ہی میں یہ بیان جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ وزیراعظم مودی فوجی جوانوں کی موت کو استعمال کر کے پارلیمان کے انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ گو کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بھی پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے خلاف شدید بیانات جاری کیے تھے۔ کرناٹک میں بی جے پی کے رہنما یدورپا نے اقرار کیا کہ پلوامہ میں 40 جوانوں کی ہلاکت سے انہیں تقریباً 22 نشستیں ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی نے جب مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کو جواب دیں کہ انہیں اگر پلوامہ حملے کے بارے میں پہلے ہی سراغ رساں اداروں نے باخبر کیا تھا تو انہوں نے اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی تو بیشتر میڈیا چینلوں نے الٹا ممتا بینرجی کو تنقید کا نشانہ بنا کر انہیں دیش مخالف رہنما قرار دیا۔
یہی نہیں بلکہ میڈیا نے ان رہنماؤں کو پاکستان جانے کا مشورہ تک دیا ہے جنہوں نے تاب و تحمل سے کام لینے یا پاکستان سے مفاہمت کرنے کی اپیل کی۔
حزبِ اختلاف کے مطابق اصل میں بی جے پی کی قیادت نے ملک کےاہم مسائل سے توجہ ہٹا کر ملک میں خوف و ہراس کا ایک ماحول قائم کرنے کا تہیہ کیا ہے تاکہ وہ لوگوں سے زبردستی ووٹ حاصل کر کے دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے جس کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے جو الٹرا نیشلزم کا جذبہ ابھار کر بدلے میں نہ صرف حکومت سے مراعات حاصل کر رہا ہے بلکہ ہندو اکثریت میں ٹی آر پی بڑھا کر اپنے چینلوں کے لیے مستقبل بھی محفوظ کر رہا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے بیشتر اداروں نے بھی بھارتی میڈیا کے جنونی کردار ادا کرنے کا سخت نوٹس لیا اور میڈیا کو سیاست اور سیاسی نظریات سے دور رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا عوام کا ترجمان ہوتا ہے اور اگر میڈیا عوام کے بجائے حکومت، سیاست دانوں یا کسی سیاسی نظریہ کا ترجمان بنتا ہے تو میڈیا پر سے عوام کا اعتباراٹھ جاتا ہے اور جو دنیا میں انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔
ہندونوازمیڈیا بی جے پی مخالف ہر پارٹی، شخص اور ادارے کو غیر محب وطن قرار دے کر عوام میں ہندو راشٹر یا ہندو دیش بنانے کے نظریے کو تقویت دے رہا ہے جس سے سیکیولر طاقتیں خود کو کمزور محسوس کرنے لگی ہیں۔