وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دورہ لاہور کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین سے ملاقات کے دوران واضح کیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ عثمان بزدار کو ہٹاکر وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مند ہیں۔ اس بیان کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا تھا کہ وزیراعظم نے کس کی جانب اشارہ کیا اور کیا واقعی وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش ہورہی ہے؟
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مند علیم خان اپنے خلاف کیس کھلنے پر پہلے ہی گرفتار ہیں۔ اس کے بعد جب سبطین خان کا نام وزارت اعلیٰ کے لیے گردش کرنے لگا تو وہ بھی حوالات کے پیچھے چلے گئے۔ اسی طرح میاں اسلم اقبال کے بارے میں سرگوشیاں ہوئیں تو وہ بھی صوبائی وزارت سے الگ کر دیے گئے۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے دوران پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہیٰ کا نام گونجنے لگا تو انہیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین کی طرح مسلم لیگ ق بھی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حق میں ہے لیکن ان کے بیوروکریسی سے حالیہ اختلافات کے باعث وہ صوبے میں بے اختیار وزیراعلیٰ نہیں چاہتے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ق وزیر اعظم کے اس حالیہ بیان سے بھی خوش نہیں کیونکہ ان کے اراکین اسمبلی کو وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے نہیں بلایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والی صوبائی وزیر باؤ رضوان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شکوہ کیا: ’حکمران جماعت پنجاب میں فیصلہ سازی میں اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیتی۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ لاہور کے دوران بھی ہمارے اراکین کو ملاقات میں نہیں بلایا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اپنے تحفظات سے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کو بھی آگاہ کردیا، لیکن اس کے باوجود ہم تحریری معاہدے پر قائم ہیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں تاہم اپنی پارٹی کارکنوں اور اراکین اسمبلی کے جذبات کا بھی احترام کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ق پنجاب کے سینیئر نائب صدر چوہدری سلیم بریار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب میں بیوروکریسی وزیر اعلیٰ پنجاب کے اختیارات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہم وزیر اعلیٰ کے ساتھ ضرور ہیں لیکن ان کے اختیارات بیوروکریسی کو دیے جانے کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اس سے ایوان بے توقیر ہو رہا ہے اور عوامی نمائندے سرکاری افسران کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔‘
’ہمارا موقف واضح ہے۔ اگر با اختیار ہوں تو عثمان بزدار وزارت اعلیٰ کے لیے بہترین ہیں اور اگر انہیں تبدیل کرنا ہے تو چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ بنایا جائے تاکہ عوامی مسائل حل ہوسکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک پنجاب میں بیوروکریسی کو مکمل طور پر موثر نہیں بنایا جاسکا، جس سے حکومت اور اتحادیوں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور لوگ متنفر ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کیا کہتی ہے؟
اس حوالے سے صوبائی وزیر اختر ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اتحادی جماعتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کو ذمہ داری دی گئی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’وزیر اعظم نے وفاق سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں وزرائے اعلیٰ کو مضبوط کرنے کے لیے سازشوں کی بات کی ہے، کسی مخصوص جماعت یا شخصیت کی طرف اشارہ نہیں دیا۔ اس صورت حال میں اپوزیشن من گھڑت بیانات بنا کر حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔‘
اختر ملک نے دعویٰ کیا کہ تمام اتحادی جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں اور پانچ سال ایسے ہی ساتھ رہیں گی۔ چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور شکوے بھی ہوتے رہتے ہیں مگر حکومت سنجیدگی سے ان کے مسائل حل کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے خطاب کے دوران سپیکر چوہدری پرویز الہیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’موجودہ وزیر اعلیٰ کی نااہلی ثابت ہوچکی ہے۔ پنجاب کے عوام پر رحم کریں اور کوئی آپشن نہیں تو آپ یعنی پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ بنا دیاجائے،‘ جس پر پرویز الہیٰ مسکراتے رہے۔