لوگ اس مغالطے میں ہیں کہ شاید مریم نواز اپنے باپ کی جنگ لڑ رہی ہیں جبکہ یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف اپنی نہیں اپنی بیٹی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہ تین مرتبہ وزیراعظم بن کر اپنی تمام خواہشات پوری کر چکے ہیں۔ اب ان کو مزید حکمرانی کی آرزو شاید نہ ہو لیکن ان کی بیٹی کو ہے۔ مریم نواز خوش قسمت ہیں کہ ان کے والد ان کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جیل میں رہنے کو تیار ہیں۔ ورنہ بےنظیر کو اپنے باپ کی اور بعد میں اپنی جنگ تن تنہا لڑنا پڑی تھی۔
خبریں ہیں کہ نواز شریف صاحب کے سامنے آپشنز رکھے گئے ہیں۔ وہ بیرون ملک جا کر آرام سے زندگی بسر کریں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ اس میں رقم کے مطالبے کے علاوہ یہ بات بھی شامل ہے کہ مریم نواز ان کے ساتھ جائیں اور معاہدہ پبلک بھی کیا جائے۔ نواز شریف عمر کے جس حصے میں ہیں ان کے لیے اس سے زیادہ پرکشش بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کی طرح ٹھنڈے ملک میں سکون اور آرام کی زندگی بسر کریں۔ بیٹے پہلے ہی باہر ہیں۔ ایک والدہ ہیں جو ان کے ساتھ چلی جائیں گی۔ لیکن ایک زنجیر ہے جو ان کے پاوں میں پڑی ہے اور وہ ہے ان کی سیاسی وارث کے مستقبل کی زنجیر۔
مریم نواز سیاست میں اپنے آپ کو مستقبل کی وزیراعظم کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے کوئی بھی پیشکش قابل قبول نہیں۔ ایسی صورت میں ان کو اپنے سیاسی مستقبل سے ہاتھ دھونا پڑے گا جس کے لیے وہ کسی بھی قیمت پر تیار نہیں ہیں۔ شہباز شریف سعودی عرب سے بھی جان چھڑا کر چلے گئے تھے اور اب کی بار بھی وہ بظاہر پتلی گلی سے نکل گئے ہیں۔ ان کو اپنے بیٹے کے سیاسی مستقبل کی فکر اس لیے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس جنگ میں حمزہ مریم سے جیت نہ پائیں گے۔ ان کے دل میں جو اپنے وزیراعظم بننے کی چنگاری سلگتی رہتی ہے اس کو بھی انھوں دبا لیا ہے۔ بریڈفرڈ بیرسٹر چیمبر میں ان کی امیگریشن کے سلسلے میں گھنٹوں طویل ملاقات کس مقصد کے لیے تھی یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم تابڑتوڑ کوششوں کے باوجود ملکی حالات سنبھال نہیں پا رہے۔ ایک طرف مہنگائی کا طوفان تو دوسری جانب بجٹ سر پر۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے وزیرِ اعظم کی پریشانی صاف دکھائی دیتی ہے، لیکن اگر نواز شریف مستقل طور پر جیل میں رہتے ہیں تو اس پریشانی میں سوگنا اضافہ ہونے کا خدشہ اپنی جگہ قائم ہے۔
ایسی صورت میں مریم نواز سڑکوں پر اپنے کارکنوں کو لائیں گی اور دگرگوں معاشی حالات اور مہنگائی کا طوفان مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو تقویت دے گا۔ پھر ایسی تحریک کو سنبھالنا حکومت کے بس کی بات نہ ہوگی۔ شاید اگلے برس کا وسط اس بات کا فیصلہ کر دے گا کہ عمران خان اپنے پانچ برس مکمل کریں گے یا دما دم مست قلندر ہو گا۔