میرا نام ماریا ہے۔ میں نے 18 فروری کو اپنا 80 ویں سالگرہ منائی۔ اس روز میرے چھوٹے سے فلیٹ میں تقریباً 14 افراد موجود تھے جن میں دو بیٹیاں، ایک بیٹا اور ان کے بچے شامل تھے۔ سبھی دور دور سے سفر کر کے آئے تھے۔
پینتالیس سال کی عمر سے ایسے دو ہی موقعے سال میں میرے نصیب میں ہیں جب میرے فلیٹ میں بچوں کی وجہ سے رونق رہتی ہے ۔ ایک کرسمس اور دوسرا میری سالگرہ۔ باقی 363 دن میں اکیلے رہتی ہوں۔ ہفتے میں چار دن میری سوشل ورکر دو گھنٹے کے لیے آتی ہیں اور خریداری سے لے کر صفائی اور پکانے کے تمام کام کر کے مجھے یسوع مسیح کے حوالے کر کے نکل جاتی ہیں۔
میرے شوہر انتقال کر چکے ہیں اور آمدنی کا کوئی وسیلہ نہیں سوائے سرکاری پینشن کے، جو مجھے حکومت کی طرف سے مل رہی ہے۔ میں اپنا گزارہ کر لیتی ہوں۔
جب سے کرونا وائرس کی خبریں موصول ہو رہی ہیں میں مزید تنہا ہو گئی ہوں۔ میں تنہائی کی عادی ہوں لیکن اب جن حالات میں مجھے زندہ رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے وہ اذیت ناک اور ناقابل برداشت ہیں۔
سب سے پہلے سوشل ورکر نے فون کر کے بتایا کہ وہ نہیں آسکتیں۔ بقول ان کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ بوڑھے اشخاص کو کرونا کا ہونا نہ صرف لازمی ہے بلکہ وہ اس سے مر بھی سکتے ہیں اور ان کی قریب رہنے والے بھی اس وائرس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
سوشل ورکر نے یہ معلومات دے کر تاکید کی کہ مجھے خود بازار جا کر اپنے لیے کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کا انتظام کرنا ہوگا۔
میں نے واکر کی مدد سے باہر جانے کی ہمت کی اور نزدیک ہی ایک بڑے سٹور میں ٹرالی میں اشیا جمع کرنے لگی۔ سٹور میں ایسی دھکم پیل تھی کہ میں کئی بار گرنے سے بال بال بچ گئی۔
چند اشیا خرید کر میں ادویات کے کاؤنٹر پر پہنچ گئی جہاں کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ میں نے کمیسٹ سے سر درد کی گولی کے لیے کہا تو اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہہ دیا ’سر درد کی گولی آپ کو کرونا سے نہیں بچا سکتی۔ گھر جا کر کورانٹین میں رہیں۔ آپ نے نہیں سنا کہ 70 سے زائد عمر کے لوگوں کو ویسے ہی مرنا ہے۔‘ اس کی آواز میں نفرت تھی یا مایوسی؟ میں اس کا اندازہ نہیں لگا سکی۔
میرا جسم بھاری ہونے لگا اور ٹرالی کو کھینچنے میں مشکل ہو رہی تھی لیکن ہر کوئی دوڑ میں تھا اور جیسے ہر کوئی موت سے بھاگ رہا تھا حالانکہ اسی سٹور میں ماضی میں کئی افراد نے میری مدد کے لیے کئی بار ہاتھ بڑھایا تھا۔
میں پاس میں رکھی کرسی پر ابھی بیٹھنے ہی والی تھی کہ دوسری کرسی پر بیٹھی عورت فورا کھڑی ہوگئی اور مجھ سے دور بھاگ گئی۔ جیسے میں ایک اچھوت بن گئی ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جو کل تک میری دل جوئی کے لیے آگے بڑھتے تھے وہ اچانک مجھ سے دور کیوں بھاگ رہے تھے۔
میری سانس پھول رہی تھی اور ذہن اندیشوں میں گھر گیا۔ سٹور کے ایک ملازم نے شاید ایمرجنسی کو فون کر کے میرے بارے میں بتایا کہ چند منٹوں میں میرے سامنے سٹور خالی ہوگیا۔ ایمبولینس کی سائرن بجنے لگے اور طبی اہلکار نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایمبولینس میں بٹھایا۔
کچھ دیر بعد مجھے ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں ایک خالی کمرے میں رکھ کر مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ میں نے جواب میں کہا کہ میں کئی سالوں سے انگلینڈ سے باہر نہیں گئی ہوں، پچھلی جمعرات سے میرے گھر کوئی نہیں آیا اور نہ مجھے کھانسی ہو رہی ہے، کرونا کا تو سوال ہی نہیں۔
انہوں نے ٹیسٹ کر کے مجھے واپس گھر پر چھوڑ دیا اور تاکید کی کہ میں گھر سے باہر جانے سے گریز کروں۔ میں نے پوچھنا چاہا کہ کھانے کا کیا کروں، زندہ کیسے رہوں؟ مجھے معلوم تھا وہ ضرور کہہ دیں گے کہ ویسے بھی اس عمر میں زندہ رہنے کا کیا فائدہ جب کرونا سے پہلے مجھے ہی مرنا ہے اور میرا علاج کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
میں کافی تھک چکی تھی۔ چائے کا ایک کپ بنانے کی ہمت نہیں تھی۔ پڑوسیوں میں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ کسی کو ایک دوسرے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ شاید امیر دنیا یا امیر علاقوں میں رہنے کا یہی ثمر ہے۔
بہت دیر تک بستر پر لیٹی رہی۔ پہلی بار دہشت اور خوف نے گھیر لیا۔ سوچ رہی تھی کہ اگر میں اس وقت مر گئی تو کرونا سے مرنے کی پاداش میں شاید کوئی دفن بھی نہیں کر پائے گا۔
شام ہونے کو تھی۔ میں بچوں کو فون کرنے لگی۔ بچے کبھی کبھار چھٹی کے دن فون پر بات کرتے ہیں۔ بڑی بیٹی نے نصیحت کی کہ کم سے کم کھانے پر گزارہ کروں کیونکہ سٹور خالی کر دے گئے ہیں۔ وہ آنا چاہتی تھی مگر وہ خود پیرس میں قرنطینہ میں ہے۔ چھوٹی بیٹی نے دبے لفظوں میں کہا کہ میرے شوہر خوش قسمت تھے کہ موجودہ حالات سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے۔
بیٹے نے معذرت کر کے فون رکھ دیا کیونکہ وہ خود کسی سٹور میں قطار میں لگے تھے جہاں راشن پر اشیا خوردنی تقسیم کی جا رہی تھیں۔ میرے تینوں بچے اپنی پریشانیوں میں اتنے گھرے ہوئے تھے کہ وہ یہ بھول گئے کہ میں کیسی ہوں۔
وزیر اعظم بورس جانسن نے سب کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ان حالات میں ہمیں اپنے عزیزوں سے محروم ہونے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ شاید میرے بچے اس حقیقت سے گھبرا رہے ہیں۔
ایسا وقت زندگی میں ضرور آتا ہے جب ہم نہ ماتم کرسکتے ہیں اور نہ خوش رہ سکتے ہیں۔ مجھے غصہ انسانوں پر نہیں جو میری طرح ان حالات میں بری طرح پھنس گئے ہیں بلکہ اوپر والے پر آتا ہے کہ جو جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج آبادی پر مزید ظلم کرتا ہے۔
کئی روز سے اب نیند بھی غائب ہے۔ ٹیلی ویژن آن کرتی ہوں تو خبر براڈ کاسٹ ہوتی ہے کہ اٹلی کے کسی شہر میں ڈاکٹروں سے کہا گیا ہے کہ بوڑھوں پر ادویات یا وقت ضائع نہ کیا جائے جبکہ امریکہ میں بعض لوگ بندوق خرید رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر کرونا سے متاثر بوڑھوں کو گولی سے اڑایا جا سکے۔
میں اوپر والے سے یہ دعا بھی نہیں مانگ سکتی کہ مجھے جلدی موت آ جائے۔ مجھے کرونا مریض سمجھ کر کوئی دفن بھی نہیں کر پائے گا۔
میں رات کو اوپر والے سے دعا کرتی ہوں کہ مجھے چند ماہ مزید جینے دے اور کرونا کے بغیر زندہ رہنے دے۔ نہ جانے مجھ پر کیا کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ میں کھڑکی کھول کر سنسان سڑکوں پر چیخنے لگتی ہوں، ’مجھے کرونا نہیں ہوا ہے۔‘