لاک ڈاؤن جو خواجہ سراؤں کو ہر طرح مہنگا پڑ رہا ہے

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر لگائے گئے لاک ڈاؤن میں خواجہ سرا نہ تو کمائی کے لیے باہر جا پا رہے ہیں اور نہ ہی ایچ آئی وی میں مبتلا خواجہ سراؤں کو ضروری دواؤں تک رسائی حاصل ہے۔

پشاور میں خواجہ سراؤں کی ایک محفل(اے ایف پی فائل)

’گھر والے ہمیں یاد نہیں کرتے لیکن پھر بھی ہم ان سے رابطے میں رہتے ہیں، جو کماتے ہیں اس کا کچھ حصہ بہن بھائیوں کے خرچے کے لیے پہنچا دیتے ہیں، مگر کرونا (کورونا) وائرس نے یہ روایت توڑ دی، وائرس آیا ہمارا کام بند ہوا ، گھر والوں کو خرچہ نہیں پہنچا اور ان کو ہماری یاد بھی آگئی۔‘

یہ کہنا تھا خواجہ سرا صائمہ کا جو  انڈپینڈینٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے اشک بار ہو گئیں۔ صائمہ کہتی ہیں: ’ہم وبا سے پہلے بھی تنہا تھے۔ اب وبا نے کام بند کروادیا تو مزید تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔‘

لاہور میں خواجہ سراؤں اور خاص طور پر ایچ آئی وی میں مبتلا خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’دوستانہ‘ کے ساتھ اس وقت تقریباً دس ہزار خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے تقریباً 4500 کی ایچ آئی وی کی سکریننگ ہو چکی ہے جن میں سے 250 میں ایچ آئی وی پایا جاتا ہے۔

دوستانہ  کے آپریشن مینیجر سید رضا حیدر نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے  سب سے زیادہ ان خواجہ سراؤں کو متاثر کیا ہے جو کوئی نوکری نہیں کرتے بلکہ  سڑکوں پر مانگتے ہیں یا سیکس ورکرز ہیں اور اب باہر نہیں نکل سکتے۔

رضا کا کہنا تھا: 'جن خواجہ سراؤں میں  ایچ آئی وی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ہم انہیں مختلف قسم کی سہولیات فراہم کر رہے ہوتے ہیں جن میں ادویات، سیف سیکس کے لیے حفاظتی اشیا اور  ایچ آئی وی کی ٹیسٹنگ وغیرہ بھی شامل ہے۔' انہوں نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا اور جاننے والے لوگوں سے بھی اس کام میں مدد کے لیے اپیل کر رہے ہیں۔

رضا کے خیال میں ایچ آئی وی پازٹیو خواجہ سرا جو عمر رسیدہ بھی ہیں  ان کو اس وائرس سے اور بھی زیادہ خطرہ ہے کیونکہ ان کی قوت مدافعت اور بھی زیادہ کم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی میں مبتلا مریضوں کی ادویات کی فراہمی کا سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس سلسلے میں وہ وفاقی ایڈز کنٹرول پروگرام سے بھی رابطے میں ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایسوسی ایشن آف پیپل لیونگ ود ایچ آئی وی کے ساتھ مل کر بھی ایک طریقہ کار بنایا ہے تاکہ خواجہ سراؤں تک ان کی ادویات کی رسائی کو ممکن بنایا جا سکے۔ 

انہوں نے بتایا :  ’اس میں پیپل لوونگ ود ایچ آئی والوں کی ایک ہیلپ لائن ہے جس کے بارے میں ہم نے ان سب لوگوں کو بتایا ہے جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹیو ہیں۔ ہم نے انہیں بتا دیا ہے کہ وہ ادویات نہ ملنے کی صورت میں ہم سے رابطہ کریں تاکہ ہم اس تنظیم کے ذریعے انہیں ادویات دلوا سکیں۔‘

رضا کا کہنا تھا کہ دوسری اہم چیز جو اس وقت ایچ آئی وی میں مبتلا خواجہ سراؤں کے لیے ضروری ہے وہ ہے قوت مدافعت برقرار رکھنے والے  وٹامنز  جس کے لیے اب وہ عوام سے اپیل کررہے ہیں۔

رضا حیدر نے بتایا کہ 2016 اور 2017میں ہونے والے انٹیگریٹد بائیلاجیکل اینڈ بیحیویرل سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سو خواجہ سراؤں میں سے سات یا آٹھ خواجہ سراؤں میں ایچ آئی وی پایا جاتا ہے۔

دوسری جانب خواجہ سرا سوسائٹی کی سربراہ مون چوہدری بھی اپنی کمیونٹی کو لے کر فکر مند ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مون نے بتایا کہ انہوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کی آگاہی مہم چلائی اور  اس کے علاوہ ان کے پاس جتنے وسائل تھے انہیں بروئے کار لاتے ہوئے خواجہ سراؤں میں  ماسک، سینیٹائزرز، صابن اور کچھ راشن بھجوایا تھا۔ جبکہ اسلام آباد میں وزارت صحت اور کچھ این جی اوز اور نجی ڈونرز کی مدد سے کچھ سامان منگوایا تھا مگر وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب تک نہیں پہنچا۔

مون نے بتایا کہ ایچ آئی وی پازیٹیوو خواجہ سراؤں کی ایک دوائی [اے آر وی] جو ان کی قوت مدافعت کے لیے ضروری ہے انہیں روز چاہیے ہوتی ہے۔ یہ دوائی پہلے تو پنجاب کے مختلف سرکاری سینٹرز سے مل رہی تھی مگر اب کرونا وائرس کی وبا کی وجہ جو لاک ڈاؤن ہوا اس کی وجہ سے مریضوں کو دوائی کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مون کہتی ہیں کہ  اب انہوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ والوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا سیل متحرک کریں جس کے بعد امید ہے کہ وہاں سے ایچ آئی وی میں مبتلا خواجہ سرا اپنی تین ماہ کی دوائی ایک ساتھ لے سکیں گے۔  اس کے علاوہ مون نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ خواجہ سرا ڈیرا سسٹم میں رہتے ہیں جس میں ایک کمرے میں پانچ سے سات لوگ رہ رہے ہوتے ہیں۔ ’موجودہ صورت حال میں اس طرح رہنا کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔ اس وقت اگر کوئی ایک بھی خواجہ سرا پیسے کمانے کی غرض سے باہر نکل رہا ہے اور وہ وائرس کا شکار ہو جاتا ہے تو آپ خود سوچیں کہ وہ کتنے لوگوں کو اس کا شکار کر سکتا ہے۔ ‘

مون نے حکومت سے درخواست کی کہ اگر ان کے الگ رہنے کا انتظام نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم انہیں ان کے دروازے پر ایک دو ہفتے کا کھانا پہنچا دیا جائے تاکہ وہ بھوک مٹانے کی غرض سے اس وقت مانگنے یا کسی اور کام کے لیے باہر نہ نکلیں۔

مون نے کہا: ’حکومت نے غریبوں کو چار  ہزار روپے ماہانہ امداد کا اعلان بھی کیا جس کے لیے قومی شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود ہم میں سے بیشتر کے شناختی کارڈ نہیں ہیں کیونکہ کارڈ بنوانے کے لیے سرپرست کا ساتھ ہونا ضروری یوتا ہے جس کا انگوٹھا لگتا ہے ہماراکوئی سرپرست نہیں ہوتا تو شناختی کارڈ کیسے بنوائیں؟‘

حکومت خواجہ سراؤں خاص طور پر ایچ آئی وی میں مبتلا خواجہ سراؤں کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام سے رابطہ کیا تو وہاں کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر انکشاف کیا کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے ان کے پاس کوئی تحریری یا زبانی گائڈ لائن نہیں آئی کے ہم نے کرونا کی وبا کے دوران ایچ آئی وی میں مبتلا خواجہ سراؤں یا دیگر مریضوں کو  کس طرح سے دیکھنا ہے یا ان کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کرنے ہی۔

 مزکورہ افسرکا یہ کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ یہ مریض سب سے زیادہ ہائی رسک پر ہیں۔

دوسری جانب وفاقی ایڈز کنٹرول پرگرام کے پروگرام مینیجر تنزیل الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی ایڈز کنٹرول پروگرام نے ایچ آئی وی میں مبتلا مریضوں کے لیے ایک نیشنل ایمرجنسی نمبر 03168568043 دیا ہےجہاں مریض اپنی ادویات حاصل کرنے کے لیے کال کرسکتے ہیں۔

 انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس نمبر پر کال کی تو کال موصول کرنے والے نے بتایا کہ ان کے پاس پاکستان میں موجود تمام ایچ آئی وی مریضوں کا ریکارڈ موجود ہے اور کال کرنے والے کی تفصیلات کال کے بعد ان کے پاس آجاتی ہیں جس کے بعد وہ ان کے لیے دوائی کا حصول ممکن بناتے ہیں ۔ مریض اپنے قریبی سرکاری ہسپتال سے جاکر وہ دوائی حاصل کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی ایڈز کنٹرول پرگرام کے تنزیل الرحمان  نے بتایا کہ ایچ آئی وی میں مبتلا مریضوں کے لیے ملک بھر میں صرف 38 ٹریٹمنٹ سینٹرز ہیں اور یہ مریض لاک ڈاؤں کی وجہ سے وہاں جا نہیں سکتے ۔ جیسے اگر اٹک میں کوئی مریض ہے تو اسے اسلام آباد پمز ہسپتال آنا پڑے گا اس لیے مسئلہ یہ آرہا ہے کہ ٹریٹمنٹ سینٹر والے انہیں ادویات کیسے بھیجیں۔

 ان کا کہنا تھا:  ’میں نہیں جانتا کہ ایمرجنسی ہیلپ لائن ان کی مدد کیسے کر رہی ہے۔‘

 تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ایچ آئی وی کے مریضوں خاص طور پر خواجہ سراؤں کے لیے  ادویات کے حصول کا مسئلہ اس وقت چل رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان