جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی قانونی مدد اور انہیں انصاف دلوانے کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے منگل کو چائلڈ کورٹس کے قیام کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
یہ بل قومی اسمبلی کی رکن سیدہ نوشین افتخار نے پیش کیا، جس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اپنے حلقے میں بچوں کے ساتھ ریپ اور جنسی استحصال کے کیسوں سے متعلق جان کر انہوں نے اس بل پر کام کیا۔
ڈسکہ، سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی نوشین افتخار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میرے اپنے حلقے میں گذشتہ دو ماہ میں بچوں کے ریپ کے تین کیس رپورٹ ہوئے، جن میں 12 سال کی دو بچیاں اور ایک سات سال کا بچہ شامل تھا۔ یہ واقعات میرے لیے بہت دل دکھا دینے والے تھے۔‘
بقول نوشین افتخار: ’میں نے اپنے اراکین اسمبلی، پولیس اور ڈاکٹروں سے جاننے کی کوشش کی کہ ریپ کیسوں پر کس طرح کام کیا جاتا ہے۔ جب میں نے اپنی تحقیق مکمل کی تو معلوم ہوا کہ ان کیسوں میں بیشتر بچوں کا میڈیکل نہیں ہوتا، ملزم کی ضمانت ہو جاتی ہے، یہ کیس صنفی تشدد کے لیے کام کرنے والی عدالتوں میں ہی سنے جاتے ہیں جبکہ ملزمان کو سزائیں ملنے میں بہت دیر لگ جاتی ہے۔ یہی سب کچھ مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس بل پر ڈیڑھ ماہ کام کیا اور اسے تیار کیا، جو کمیٹی میں پاس ہوگیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس بل پر عملدرآمد اسلام آباد سے شروع ہوگا، پھر ہم صوبوں کو اس میں شامل کریں گے اور ہر ضلعے میں بچوں کے لیے ایک عدالت بنائی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اس بل میں بچوں کی عدالت میں پیشی کے لیے آن لائن سہولت بھی دی گئی ہے کہ فرض کریں کہ کوئی بچہ بیرونِ ملک سے یہاں آیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے اور وہ واپس چلا جاتا ہے یا وہ بچے جو عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتے، وہ آن لائن اپنے بیانات ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔
نوشین افتخار نے بتایا کہ ’بل کے مطابق بچے کے ساتھ ملزم کے سامنے جرح نہیں کی جائے گی، اگر بچہ کسی کیس کا گواہ ہے تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری عدالت پر ہوگی اور اس بچے کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی۔‘
اسی طرح: ’ریپ کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اندر بچے کا طبی معائنہ ہوگا جبکہ کیس رپورٹ ہونے کے چھ ماہ کے اندر اس کا فیصلہ ہوگا۔‘
نوشین کا کہنا تھا کہ ان کیسوں کو سننے کے لیے تربیت یافتہ ججوں یا سپیشل مجسٹریٹ لگائے جائیں گے اور کوشش کی جائے گی کہ ’سازگار ماحول میں سماجی کارکن اور نفسیاتی ماہر کی موجودگی میں بچے سے بات چیت کی جائے اور اسے یہ نہ لگے کہ وہ کسی عدالت میں ہے یا اس سے جرح کی جا رہی ہے بلکہ کسی دباؤ کو محسوس کروائے بغیر بچے سے بیان لیا جائے گا۔‘
نوشین نے بتایا کہ ایسے بچوں کے لیے اس صورت میں مالی مدد بھی فراہم کی جائے گی کہ اگر بچے کو اس کے گھر سے کہیں اور منتقل کرنا ہے یا اس کی کونسلنگ کرنی ہے تو ایسی صورت حال میں اسے مالی مدد بھی عدالت فراہم کرے گی، جس کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں گے۔
رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ ’یہ بل اب کمیٹی سے سینیٹ میں جائے گا، وہاں سے منظور ہو کر واپس ایوان میں آئے گا اور یہاں سے منظور ہونے کے بعد میں سپیکر اور وزیر قانون سے درخواست کروں گی کہ اس کی میٹنگز جلد کروائیں تاکہ یہ جلد از جلد پورے ملک میں کام کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اس کی آگاہی مہم اور سیمینارز بھی کروانے پڑیں گے تاکہ یہ موثر طریقے سے کام کرے۔
’اہم سنگ میل‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں پاس ہونے والے چائلڈ کورٹ بل کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے بچوں کے تحفظ اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔
سارہ کے خیال میں: ’چائلڈ کورٹس کے قیام سے متاثرہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ریپ کے مقدمات کا بروقت حل بھی ممکن ہو سکے گا جبکہ اس کے ذریعے بچوں سے ریپ اور استحصال کے واقعات میں کمی بھی واقع ہوگی۔‘
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمر مجید نے اس بل کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’بچوں کے لیے سپیشل عدالتیں ہونی چاہییں لیکن میرے خیال میں اگر یہ عدالتیں صرف ریپ کیسوں کے لیے ہوں گی تو بہت محدود ہو جائیں گی۔ ہم نے تو ہمیشہ اس بات کا پرچار کیا کہ بچوں کے لیے سپیشل عدالتیں ہونی چاہییں، جس میں بچوں سے متعلق تمام جرائم کو سنا جائے، جس میں وہ سب بچے چاہے وہ ملزم ہیں، متاثرہ ہیں یا عینی شاہد ہیں، ان کے لیے ایک عدالت ہونی چاہیے جو ان کے مسائل کو سنے۔‘
بچوں کے حقوق کے حوالے سے ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے تنظیم چلانے والی بشریٰ اقبال حسین کے خیال میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے جو بھی قدم اٹھایا جائے، وہ قابل تعریف ہوتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
’بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کیسے کروائیں؟ اگر چائلڈ کورٹس کے لیے تربیت یافتہ جج رکھے جاتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی رحمت ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’مجھے جو بات مثبت لگی وہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے ہم جس جوڈیشل سیٹ اپ میں جا رہے ہیں، خاص طور پر بچوں کے استحصال کے حوالے سے تو اس صورت حال میں اگر جج تربیت یافتہ ہوں گے تو وہ پہلے سے اپنا ذہن بنا کر نہیں بیٹھے ہوں گے بلکہ کھلے دماغ کے ساتھ آئیں گے اور حساسیت کے ساتھ کیس کو سنیں گے۔‘
بشریٰ اقبال حسین کے مطابق: ’دوسری مثبت بات بچوں کی رزاداری کے حوالے سے ہے، ہمارے ہاں متاثرہ فرد کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا اتنا غیر حساس ہے کہ وہ اپنا مائیک کسی کے بھی سامنے رکھ کر کچھ بھی پوچھ لیں گے تو اس بل کے ذریعے ان سب چیزوں کو روکا جا سکے گا۔‘
بشریٰ کا کہنا تھا کہ بچوں کے کیسز میں ان کے سٹیک ہولڈرز ان کے گارڈینز ہوتے ہیں اور انہیں دباؤ میں لانا یا لالچ دے دینا بہت آسان ہوتا ہے اور چونکہ وہ اپنے فائدے اور نقصان دیکھ رہے ہوتے ہیں، اس لیے وہ عموماً بچوں پر سمجھوتا کر لیتے ہیں، اس لیے میرے خیال میں بچوں پر کسی بھی قسم کے تشدد کے معاملے میں ریاست کو کہیں نہ کہیں فریق بننا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے لیے چائلڈ فرینڈلی کورٹس کا تصور پہلے سے موجود ہے جبکہ ہمارے ہاں جووینائل جسٹس سسٹم زیادہ اچھا نہیں ہے۔ ’میرے خیال میں شاید ایسی چائلڈ کورٹس بننے کے بعد جب بچوں کے کیسوں کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے گا اور جب ایسے معاملات میں اثر و رسوخ والے لوگ شامل ہو کر کام کریں تو ملزمان کی پکڑ زیادہ آسان ہو جائے گی۔‘
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں پر مختلف اقسام کے تشدد کے 1630 واقعات سامنے آئے، جن میں سے 863 کیس بچوں کے جنسی استحصال کے تھے۔