سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی بدھ کو سماعت میں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل آرمی پبلک سکول (اے پی ایس سانحے) جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کے لیے تھا، کیا تمام سویلینز کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جا سکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحے میں کیا گیا؟‘
کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والا فیصلہ پڑھا اور کہا کہ ’ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یا نہ کریں۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لیے ان کا کیس الگ ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ کیس میں نو مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے؟‘
جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقعے پر ریمارکس دیے کہ ’پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سے متعلق بین الاقوامی پریکٹس کیا ہے۔‘
’طے کرنا ہو گا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہو گا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے۔‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، پانچ رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، اگر ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اب آفیشل سکرٹ ایکٹ میں 2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لیے پوچھا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ’روزانہ کی بنیاد پر ہمارے فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے کہ ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، اگر کوئی محض ایک سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلے گا، سوال یہ ہے کہ کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق تین کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔‘
فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ قیدیوں کی سہولیات سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل میں سہولیات سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے گذشتہ روز کی سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ ملٹری کورٹس سے آئے قیدیوں کو سہولیات مل رہی ہیں یا نہیں، اس پر رپورٹ دیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’پنجاب میں 28 میں سے 27 ملزمان جیل میں ہیں، فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے سویلینز کو جیل رولز 1978 کے مطابق تمام سہولیات دی جارہی ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق کہا گیا کہ ’جیل کے میڈیکل آفیسر نے جیل میں داخلے کے وقت میڈیکل سکریننگ کی، قیدیوں کو آفیشل مینیو کے مطابق دن میں تین مرتبہ گرم اور معیاری کھانا دیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو بستر اور کمبل کی سہولت بھی جیل حکام کی جانب سے دی گئی ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ اہل خانہ سے ہر جمعے کو ملاقات کی سہولت بھی دی گئی ہے، ملاقات کے دن اہل خانہ کھانا، پھل اور دیگر اشیا لا سکتے ہیں۔ لیکن فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ قیدی عام قیدیوں کے ساتھ جیل کے اندر موجود کھلے احاطے میں گھوم پھر نہیں سکتے اور انہیں الگ رکھا گیا ہے کیونکہ ملزمان کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ دفعہ تین کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔
عدالت نے پنجاب حکومت سے سزا یافتہ قیدیوں کو نقل و حرکت کی آزادی پر مبنی رپورٹ مانگ لی اور کہا کہ ’بتایا جائے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ بھی عام قیدیوں کی طرح جیل کے احاطے میں نکل سکتے ہیں؟‘
عدالت نے مزید دلائل کے لیے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔