’گھر، دکانیں جلائی گئیں‘: بگن دھرنا شرکا کا حکومت سے معاوضے کا مطالبہ

مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار کو کھولنے میں بنیادی مسئلہ بگن میں جاری دھرنا ہے اور منتظمین کا مطالبہ ہے کہ انہیں جلائی گئی دکانوں اور گھروں کا معاوضہ دیا جائے۔

’ہماری ساری دکانیں جلا دی گئیں۔ مشتعل مسلح افراد نے گھروں کے اندر داخل ہو کر ہمارے گھروں کا سامان جلایا اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا لیکن حکومت اب کم از کم معاوضہ تو دے تاکہ علاقے کے لوگ زندگی دوبارہ شروع کریں۔‘

خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کرم کے علاقے بگن سے تعلق رکھنے والے محمد عرفان کا گھر 22 نومبر کو جلا دیا گیا تھا، جو اب معاوضے کے منتظر ہیں تاکہ اپنی زندگی ازسرنو شروع کر سکیں۔

عرفان نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ موجود تھے کہ مسلح افراد نے آکر گھر کو آگ لگا دی، لیکن انہوں نے بچوں اور خواتین کو بچا لیا۔

انہوں نے بتایا: ’وہ شام ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے جب ہمارا گھر ہماری آنکھوں کے سامنے جل رہا تھا اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔‘

عرفان نے بتایا کہ بگن کے علاقے مندوری میں دھرنا جاری ہے اور اس کا ون پواؤنٹ ایجنڈا ہے کہ متاثرین کو معاوضہ دیا جائے اور یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے شہریوں کے نقصانات کا ازالہ کریں۔

بگن بازار میں کیا ہوا تھا؟

مسلح مشتعل مظاہرین نے بگن اوچت کے مقام پر 21 نومبر کو گاڑیوں کی قافلے پر حملے کے اگلے روز یعنی 22 نومبر کو بگن بازار اور رہائشیوں کے گھروں کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

یہ بازار اب ویران ہوچکا ہے۔ بازار میں دکانوں کے علاوہ سرکاری بینک، نادرا کے دفتر سمیت سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بگن میں جلائے گئے گھروں کے مکین اب ٹل، کوہاٹ یا پشاور منتقل ہوگئے ہیں، تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے متاثرین کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

ضلع کرم میں 21 نومبر کو گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم مسلح افراد کے حملے کے نتیجے میں 42 افراد جان سے چلے گئے تھے۔

اس کے بعد کرم میں حالات کشیدہ ہوگئے، فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے اور جھڑپوں میں بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا۔

کشیدگی کے دوران سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 130 کے قریب اموات ہوئیں اور اس کے بعد سرکاری سرپرستی میں ایک جرگہ تشکیل دیا گیا۔

جرگے کی مختلف نشستیں ہوئیں اور یکم جنوری کو جرگے کے کنوینیئر اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے اعلان کیا کہ دونوں فریقین کے مابین امن معاہدہ طے پایا گیا ہے۔

کرم گرینڈ جرگے کے رکن عبدالولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو یکم جنوری کو بتایا تھا کہ ’معاہدے پر ہم نے دستخط کر دیے جبکہ چند اراکین کے خاندان میں فوتگی ہو گئی تھی، لہذا ان کے دستخط باقی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار روڈ، اسلحے کی حوالگی اور بنکرز کو مسمار کرنے پر بھی فریقین متفق ہیں۔‘

جرگے کے ایک اور رکن ڈاکٹر عبدالقادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو معاہدے کے دن بتایا تھا کہ جرگے میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ بگن میں نقصانات کا ازالہ حکومت کرے گی۔

اسی طرح ڈاکٹر عبدالقادر نے یہ بھی کہا کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 15 دن کے اندر اسلحہ بھی حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔

معاہدے کے دو دن بعد چار جنوری کو صوبائی حکومت کی جانب سے پاڑہ چنار کو خوراک اور دیگر سامان پر مشتمل 75 ٹرکوں کا ایک قافلہ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

گاڑیوں کا قافلہ کرم کی داخلی چیک پوسٹ چھپری پر موجود تھا۔پولیس کے مطابق ڈپٹی کمشنر کرم اور ان کے ساتھ موجود سکیورٹی اہلکار چھپری میں موجود گاڑیوں کے قافلے کے انتظامات کرنے جا رہے تھے کہ بگن میں ان پر حملہ کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر پر حملے کا مقدمہ پانچ افراد پر درج کیا گیا اور حکومت نے جرگہ اراکین سے ان پانچ افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ عدم حوالگی پر علاقے میں آپریشن کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔

مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار کو کھولنے میں بنیادی مسئلہ بگن میں جاری دھرنا ہے اور منتظمین کا مطالبہ ہے کہ انہیں جلائی گئی دکانوں اور گھروں کا معاوضہ دیا جائے۔

جرگے کے منتظمین میں شامل اور لوئر کرم سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد کریم، جنہوں نے معاہدے پر دستخط نہیں کیا ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی 400 سے زائد دکانوں اور 600 سے زائد گھروں کو جلایا گیا ہے۔

تاہم حاجی کریم کے مطابق ابھی تک صوبائی اور وفاقی حکومت ان کی داد رسی کے لیے نہیں آئی اور نہ ہی کسی نے بگن بازار کا دورہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے گھروں کو جلانے کی وجہ سے اس ٹھٹھرتی سردی میں لوگ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں معاوضہ اور جان سے جانے والوں اور زخمیوں کو شہدا پیکج دیا جائے۔‘

حاجی کریم نے مزید بتایا کہ انہوں نے جرگے کے دوران بھی واک آؤٹ کیا تھا کیونکہ وہاں بھی انہوں نے بگن کے متاثرین کو معاوضہ دینے کی بات کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی ہمارا دھرنا بھی اسی مقصد کے لیے ہے کہ حکومت ہمیں معاوضہ دے تاکہ جن کے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں، وہ دوبارہ کام شروع کریں کیونکہ بازار اور گھروں کو جلانے سے اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

 بگن میں گھروں کو جلائے جانے کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں مال مویشی بھی یا تو جل کر مر گئے یا لاپتہ ہوگئے، جس کا ڈیٹا ضلعی انتظامیہ نے تیار کیا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق بگن کے علاقوں بگن، بادشاکوٹ اور ٹالوکونج میں 786 کے قریب گائیں، 677 بھیڑ بکریاں اور 460 تک پولٹری جانور لاپتہ ہیں۔

بگن کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ترجمان انور شہزاد سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس حوالے سے ’انتظار کرنے‘ کا مشورہ دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان