طالبان کی امریکی رکن کانگریس کے دعوے کی تردید: ’انخلا کے اخراجات کو مالی امداد بتایا‘

افغانستان نے مالی امداد سے متعلق امریکہ کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس ممبر ٹِم برچٹ نے جس رقم کا حوالہ دیا ہے وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے وابستہ اخراجات ہیں۔

افغان طالبان کے اہلکار 12 اپریل 2022 کو کابل میں امریکی سفارت خانے کے سامنے سے ایک گاڑی میں گزر رہے ہیں (فائل فوٹو: وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

افغانستان نے مالی امداد سے متعلق امریکہ کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس ممبر ٹِم برچٹ نے جس رقم کا حوالہ دیا ہے وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے وابستہ اخراجات ہیں۔

باختر نیوز ایجنسی کے مطابق افغان طالبان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرات نے ایک بیان میں اربوں ڈالر کی امداد کے امریکی دعوے کو ’مکمل طور پر غلط‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ ’امریکہ سے کوئی امداد ملی نہ ہی اس طرح کی درخواستیں کیں‘۔

کانگریس ممبر ٹِم برچٹ نے گذشتہ دنوں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط لکھا، جس میں ان امدادی پروگراموں کو بند کرنے کی درخواست کی گئی تھی جو ان کے مطابق طالبان کو فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔

انہوں نے ایکس پر نو منتخب صدر کو بھیجے گئے خط کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں طالبان کو دی جانے والی فنڈںگ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں روکنا ہو گا۔ 

’ہم اپنے ان دشمنوں کو ہر ہفتے اپنے ٹیکس کے پیسوں سے 40 ملین ڈالر دے رہے ہیں۔‘

 

اپنے خط میں برچٹ نے الزام لگایا کہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکی غیرملکی امداد بالواسطہ طور پر طالبان کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کانگریس کے 118ویں اجلاس میں امریکی سیکرٹری خارجہ اینٹنی بلنکن کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں مبینہ طور پر بلنکن نے تسلیم کیا تھا کہ غیرسرکاری تنظیموں نے طالبان کو تقریباً 10 ملین ڈالر ٹیکس کی مد میں ادا کیے ہیں۔

برچٹ نے خط میں افغانستان کے مرکزی بینک کو بھیجے جانے والی رقوم کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ یہ رقم ٹریک کرنا مشکل ہوتی ہے اور طالبان کے ہاتھوں غلط استعمال کا خدشہ ہوتا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ’طالبان کو فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں اور وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے منصوبے بنا رہے ہیں ‘

اس خط کے جواب میں ارب پتی کاروباری شخصیت اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے مالک ایلون مسک نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم بالواسطہ طور پر ’طالبان کو فائدہ‘ پہنچا سکتی ہے۔

اپنے ایکس اکاؤنٹ پر انہوں نے لکھا: ’ کیا ہم ٹیکس دینے والوں کی رقم طالبان کو بھیج رہے ہیں؟‘

ان دونوں بیانات نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی جس کے بعد افغانستان حکومت نے باضابطہ بیان جاری کیا اور ان دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ امریکہ کے دعوے کے برعکس، جن فنڈز کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ بنیادی طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے وابستہ اخراجات ہیں۔

افغان طالبان کے نائب ترجمان نے امریکہ کو نہ صرف امداد روکنے بلکہ مبینہ طور پر افغان عوام کے اربوں ڈالر تک رسائی روکنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے افغان اثاثوں پر قبضہ قرار دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل