برازیل کے دارالحکومت ساؤپولو کے نواحی علاقے سوزانو میں پستول، چاقو، کلہاڑی اور تیر کمان سے لیس دو سابقہ طالب علموں نے اپنے ہی سکول کے پانچ طلبہ اور دو نوجوانوں کو ہلاک کرکے خود بھی خودکشی کرلی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دونوں حملہ آوروں نے سوزانو میں واقع پروفیسر راؤل برازیل سکول میں حملہ کرنے سے قبل پرانی گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا۔
ریاست کے پبلک سیکریٹری جوآؤ کیمیلو پائرس دی کیمپوز نے بتایا کہ بدھ (13 مارچ) کو پیش آنے والے اس واقعے میں پانچ طلبہ کے علاوہ ایک استاد اور انتظامیہ کا ایک رکن ہلاک جبکہ دیگر نو افراد زخمی بھی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میری زندگی کا اداس ترین دن ہے۔‘
حکام کے مطابق حملہ آوروں کی شناخت 17 سالہ گوئل ہرمے تاؤکی مونٹیرو اور 25 سالہ ہنریق دی کاسترو کے نام سے ہوئی ہے۔
پبلک سیکریٹری دی کیمپوز کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سابق طلبہ کے اس عمل کے پیچے کیا محرکات تھے؟
حملہ آور مونٹیرو کی والدہ تاتیانا تاؤکی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کے بیٹے کو سکول میں پریشان (Bully) کیا جاتا تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس وجہ سے اُنھوں نے سکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔
تاتیانا تاؤکی نے بتایا کہ انہیں اس حملے کی اطلاع دیگر لوگوں کی طرح ٹی وی کے ذریعے ہوئی اور انہیں اپنے بیٹے کے اس میں ملوث ہونے پر حیرت ہوئی۔
حملے سے چند منٹ قبل مونٹیرو نے بغیر کچھ تحریر کیے، فیس بک پر 26 تصاویر پوسٹ کی تھیں، جن میں سے متعدد میں ان کے ہاتھ میں پستول موجود تھی، جبکہ کچھ تصاویر میں انھوں نے ڈھانچے اور ہڈیوں کے کراس کے نشان کے پرنٹ والا سیاہ سکارف پہن رکھا تھا۔
تاہم بدھ کی دوپہر فیس بک نے مونٹیرو کا فیس بک پیج بند کر دیا۔
دی کیمپوز نے بتایا کہ حملے کے دوران مونٹیرو نے اپنے پستول سے فائرنگ کی، جبکہ ڈی کاسٹرو نے تیر کمان کا استعمال کیا، تاہم فرانزک کے بعدہی یہ واضح ہوگا کہ مقتولین میں سے کس کی ہلاکت کس طرح سے ہوئی۔
حکام کے مطابق حملہ آوروں کے پاس چاقو اور چھوٹی کلہاڑیاں بھی تھیں۔
پولیس کرنل مارسیلو سالیس نے بتایا کہ ’34 برس کی پولیس کی نوکری میں، میں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ کسی نے تیر کمان کا اس طرح سے استعمال کیا ہو۔‘
رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں نے سکول کے عقب میں واقع ایک کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی، جہاں بہت سے طلبہ نے پناہ لے رکھی تھی۔
اسی دوران پولیس موقع پر پہنچ گئی، لیکن ان کا سامنا کرنے کے بجائے مونٹیرو نے پہلے ڈی کاسٹرو کو گولی ماری اور پھر اپنی بھی جان لے لی۔
16 سالہ ایک عینی شاہد کیلی مائلینی گوئیرا کاردوسو نے بتایا کہ انہوں نے دیگر طلبہ کے ساتھ سکول کے کیفے ٹیریا میں پناہ لی، دروازہ بند کیا اور فرش پر لیٹ گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم اُس وقت تک وہاں رہے، جب تک دروازہ نہیں کھولا گیا، ہم سمجھے کہ یہ حملہ آور ہیں لیکن وہ پولیس تھی، جنہوں نے ہم سے کہا کہ ہم یہاں سے بھاگنا شروع کر دیں۔‘
سکول کے قریب واقع گھر میں رہائش پذیر ایک ریٹائرڈ شخص ہوراسیو پیریرا نونیس نے بتایا کہ انہوں نے صبح دس بجے کے قریب فائرنگ کی آوازیں سنیں، جس کے بعد بچوں کے بھاگنے اور چیخنے، چلانے کی آوازیں آئیں۔
حملے کا نشانہ بننے والے سکول میں ایلیمنٹری اور ہائی سکول گریڈ کے 16 سو سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
برازیل کے صدر جیر بولسونارو نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے اہلخانہ کے ساتھ ہمدری کا اظہار کیا۔
برازیل میں سکولوں میں حملوں کے واقعات شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ 2011 میں ریو ڈی جینرو میں واقع ایک سکول پر ایک شخص نے حملہ کرکے 12 طلبہ کو ہلاک کر دیا تھا۔