بھارت کی سوا ارب آبادی 14 اپریل کو نریندر مودی کی تقریر کا بےصبری سے انتظار کر رہی تھی لیکن جتنا انتظار اتر پردیش کی 35 برس کی روپا کو تھا شاید ہی اس کی زندگی میں اتنی بےصبری کا ایسا لمحہ پہلے کبھی آیا ہو۔
اس بے صبری کی کئی وجوہات تھیں۔
ایک اس لیے کہ وہ مودی جی کی زبردست مداح ہیں۔ دوسرا وہ ہمیشہ مودی کو اپنے پڑوسیوں میں ہنومان بھگوان سے تشبہہ دیتی آئی ہیں، تیسرا اس لیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن کے کہنے پر انہوں نے مظفر آباد میں مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی مہم میں بھر پور کردار ادا کیا تھا۔
اب مودی جی پر ذمہ داری عائد ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کی اس نازک گھڑی میں روپا کی امداد کریں تاکہ وہ پڑوس میں اپنی شان قائم رکھ سکے۔ روپا کئی روز سے اپنے تین بچوں، لاغر والد اور شوہر کے ہمراہ بھوکے پیٹ سو رہی ہیں کیوں کہ کچرا جمع کرنے کا کام اس وقت سے بند پڑا ہے جب سے مودی جی نے 25 مارچ کو کرونا وائرس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔
مودی نے کہا جنتا کرفیو ہوگا۔ روپا نے سختی سے عمل کیا۔
مودی نے کہا کہ تالی یا تھالی بجاؤ۔ روپا نے برتن بجا بجا کر اپنے ہاتھوں کو زخمی کر دیا۔
مودی نے کہا کہ چراغ روشن کرو تو روپا نے گھر میں موجود تیل کا آخری قطرہ بھی ڈال دیا۔
اب پھر مودی تقریر کرنے والے تھے تو روپا کو یقین تھا کہ مودی جی نے آج کچھ کھانے کا بندوبست ضرور کیا ہوگا۔
مودی کی تقریر کا انتظار ان ہزاروں مزدوروں کو بھی تھا جو روزانہ اجرت پر اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں مگر تین ہفتوں سے زائد عرصے کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر نہیں پہنچ سکے اور سڑکوں پر بھوکے پیاسے پھر رہے ہیں۔
وہ چار کروڑ بچے بھی مودی کو سننے کے لیے بےتاب تھے جو بھارت کے گلی کوچوں میں سڑکوں پر سوتے ہیں اور کم کیلوریز پر زندہ رہ کر جسمانی طور لاغر تصور کئے جاتے ہیں۔
تقریبا 20 لاکھ چھوٹے دوکاندار اور تاجر کئی گھنٹے پہلے ٹیلی ویژن آن کر کے بیٹھے تھے کہ ان کی آبادکاری سے متعلق کس سکیم کا اعلان کیا جائے گا تاکہ ان کی روزی روٹی قائم رہ سکے۔
چار ہفتوں سے بند پڑی صنعتوں کے لاکھوں ملازمین سے کہاگیا تھا کہ مودی کی تقریر میں ان کے لیے اقتصادی پیکج کا اعلان ہوگا تاکہ ان صنعتوں کے ساتھ ساتھ ملازمین کو بھی بچایا جاسکے۔
ہندوتوا کی تحریک چلانے والے بھی تاک میں تھے کہ مودی اشاروں کنایوں میں ان کے لیے کسی ایسی سکیم کا حوالہ ضرور دیں گے جس کی وساطت سے وہ مذہبی جذبات کو ابھارنے کے کام کے ساتھ پیٹ کی آگ بھی بجھا پائیں گے۔
بھارت کی سوا ارب آبادی اس پر متحد اور متفق ہے کہ مودی کی تقریر ولولہ انگیز ہوتی ہے، وہ لفظوں کے جادوگر ہیں اور چند لفظوں کے ہیر پھیر سے وہ پوری آبادی کو اسیر بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی تقریر کے عاشقان میں بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہیں جو مودی کے ایک ایک لفظ کی سرجری کرنے کے بعد کچھ بولنے کی سکت سے محروم ہو جاتی ہیں حالانکہ مودی جی کا میڈیا اکثر اوقات ان کی گھگھی بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ جب ارنب گوسوامی ان پر برس پڑتا ہے اور پاکستانی لیبل لگا کر رسوا کرتا ہے تو ان کے گھر والے بھی ان سے قطع تعلق کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اب جب مودی کی تقریر شروع ہوگئی تو بند کمروں میں ایسی خاموشی چھا گئی کہ جو میں نے تین دہائی قبل بھارت کے گلی کوچوں میں اس وقت دیکھی تھی جب ٹیلی ویژن پر پہلی بار رامائن کا ڈراما شروع ہوا کرتا تھا۔
سبھی اقتصادی پیکج کے لیے بےقرار اور دل میں تڑپ لیے کہ اس بار شاید حکومت کی طرف سے دو وقت کی روٹی ملنے کی یقین دہانی ضرور ہوگی۔
جب مودی نے تقریر کے دوران کرونا (کورونا) وائرس سے دور رہنے کے کئی نسخے بتائے اور مزید تین ہفتوں تک گھروں میں محصور رہنے کا اعلان کیا تو سب کے چہرے پیلے پڑ گئے اور پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے ’مودی جی اس پاپی پیٹ کو کیسے پالیں۔ اس کا بھی کوئی نسخہ بتا دیجیے۔‘
تقریر ختم ہوتے ہی اتر پردیش کی روپا سڑک پر نکل گئی اور بچوں سمیت بیچ راہ بیٹھ گئی۔ وہ چیخ چیخ کر کہنے لگی مودی جی آپ کی تقریر سے آج میرا اور میرے بچوں کا پیٹ نہیں بھرا۔ ایسا کریں ہمیں کچرا جمع کرنے کی مہلت دیں اور ہمیں کرونا وائرس ہونے دیں تاکہ ہم اسی سے مر جائیں۔ ہماری بیماری کا صرف یہی علاج ہے۔‘
پڑوسی بند کھڑکیوں سے روپا کو بھوک سے نڈھال ہوتے دیکھ رہے تھے اور وہ شاید پہلی بار مودی کو کوس رہے تھے۔