خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروئی کو دس سال تو گزر گئے تاہم اب بھی رہائشی اپنے تباہ شدہ مکانات کو وپس لوٹ کر بنانے کی بجائے صوبے کے دوسرے اضلاع میں گھر بنانے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر حمیداللہ خٹک کے مطابق جنوبی وزیرستان میں تباہ شدہ مکانات کے سروے کے مطابق 37 ہزار خاندانوں کو فی خاندان چار لاکھ کے حساب سے 14 آرب 80 کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں مگر بہت کم لوگوں نے معاوضے کی رقم دوبارہ تعمیر پر خرچ کی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق زیادہ تر لوگوں نے ان پیسوں کو ڈیرہ اسمعیل خان اور ٹانک میں مکانات پر استعمال کیا ہے۔
محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر بیورکریٹ نے بتایا کہ کہ فوجی کارروائی سے متاثر ہونے والے 90 فیصد لوگوں کو چھت میسر نہیں تو وہ کیسے اپنے علاقے میں آباد ہوسکتے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ چار لاکھ روپے سے ایک کمرہ بھی نہیں بن سکتا تو ایک پہاڑ کے اوپر مکمل مکان بنانا تو ممکن نہیں، جس کی وجہ سے لوگوں نے دوسرے علاقوں میں آباد ہونے کو بہتر سمجھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ علاقے میں لائیو سٹاک اور زراعت پر زیادہ پیسے خرچ کریں تاکہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع بھی مل جائیں۔
آمدن کے ذرائعے کی کمی
جنوبی وزیرستان میں بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے اور رہائشیوں کے لیے آمدن کے ذرائع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں بسنے والوں کا کہنا ہے مزدوری کے پیچھے اگر دو سو کلومیٹر دور ڈیرہ اسمعیل خان جانا پڑتا ہے تو یہ بہتر نہیں کہ اپنا خاندان بھی وہاں لے جائیں جہاں روزگار کا موقع مل جائے۔
جنوبی وزیرستان میں ایک بڑی تعداد میں لوگ اپنے مکانات پر دوبارہ انویسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کو خوف ہے کہ اگر وہ دوبارہ مکان تعمیر کرنے پر لاکھوں کا سرمایہ بھی خرچ کریں تو کیا ضمانت ہے کہ وہ دوبارہ کسی فوجی آ پریشن یا عسکریت پسندوں کا نشانہ نہیں بنیں گے۔
کئی کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مکان ہی محفوظ نہیں تو انہیں دوبارہ تعمیر کرنے سے بہتر ہے کہ وہ ڈیرہ اسمعیل خان یا ٹانک میں پلاٹ خریدیں اور وہاں مکان بنائیں، یا معاوضے کے پیسوں سے کراچی میں اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرسکیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی جنوبی وزیرستان میں بعض علاقوں کو کلئیر قرار نہیں دیا ہےاور وقتاً فوقتاً آپریشن کیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹانک میں رہائش پذیر نور عالم محسود نے انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ علاقہ شنکئی میں ان کے تباہ شدہ مکان کے سروے کے بعد حکومت سے چار لاکھ روپے مل گئے تاہم ان کے مکان کی واپس تعمیر پر 25 لاکھ روپے تک کا خرچہ متوقع تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک تو ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ مکان کو دوبارہ تعمیر کر سکیں اور دوسرا یہ کہ ابھی تک علاقہ بھی کلئیر اور محفوظ نہیں قرار دیا گیا۔ تو ان کے پاس بہتر آپشن یہی تھا کہ ٹانک میں پہلے سے موجود پلاٹ پر مکان تعمیر کیا جائے۔
نور عالم کا کہنا تھا کہ شنکئی میں 15 ہزار آبادی میں سے صرف دو گھرانے وہاں موجود ہیں جو انتہائی غربت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ گاؤں کے باقی لوگ ٹانک یا ڈیرہ اسمعیل خان میں آباد ہوگئے ہیں جہاں وہ اپنے چھوٹے کاروبار میں مصروف ہیں یا کراچی چلے گئے ہیں۔
اسی طرح اسد خان کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے اکثر لوگ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔وزیرستان میں نہ کوئی کارخانہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا کاروبار جس سے ان کو روزانہ کے حساب سے مزدوری مل سکے اور گھر کا چولھا چلتا رہے۔ اس لیے مجبوراً انہوں نے اپنے علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے کو ترجیح دی ہے۔
امیر حمزہ نے بتایا کہ پورے علاقے میں روزانہ کے حساب سے کوئی کام نہیں ملتا تو بہتر یہ تھا کہ وہ اپنے بال بچوں سمیت اس علاقے میں آباد ہو سکے جہاں روزانہ کے حساب سے مزدوری کا کام ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے اتنی چیک پوسٹیں بنائی ہے جہاں سے گزرنا ایک مشکل مرحلے کو طے کرنا ہے۔
علاقہ محسود کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت متاثرہ علاقے میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے جس کے لیے سب سے پہلے امن قائم کرنا ہوگا اور پھر تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبوں میں سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔
محسود قبائل کے علاقے میں سیر و سیاحت کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں جس کوسیر و سیاحت کے قابل بنانے کے لیے عمل اقدامات کی ضرورت ہے۔
متاثرین نے اپنے تباہ شدہ مکانات کو دوبارہ تعمیر کرنے کی بجائے ڈیرہ اسمعیل خان اور ٹانک میں پیسے خرچ کرنے کو محفوظ قرار دیا ہے۔ جس کی وجہ سے 7 لاکھ لوگوں کی آبادی کا علاقہ خالی پڑا ہے اور شدت پسند طالبان کو آزادانہ طور پر نقل و حرکت موقع ملا ہے۔