'لاک ڈاؤن سے پہلے سرکاری دفاتر، دکانوں، بڑے پلازوں سمیت گھروں کو اخبار سپلائی کیا جاتا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے چونکہ زیادہ تر پلازے ، سرکاری دفاتر اور دکانیں بند ہیں اسی وجہ سے اخبار کی سرکولیشن میں 50 فیصد تک کمی آئی ہے۔'
یہ کہنا تھا پشاور اخبار فروش یونین کے جنرل سیکرٹری محمد رفیق کا جو گزشتہ دو دہایئوں سے اخبار فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان ہیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن بھی ضروری ہے ۔
رفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمیں سب سے زیادہ نقصان سرکاری دفاتر کی بندش سے ہوا ہے کیونکہ زیادہ تر اخبار سرکاری دفاتر میں سپلائی کیے جاتے ہیں جن سے اخبار فروشوں کو اپنا کمیشن ملتا ہے لیکن اب چونکہ زیادہ تر دفاتر بند ہیں اور چند ہی ملازمین دفتر آتے ہیں اس لیے اخبار کی سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
رفیق نے بتایا کہ ایک اور مسئلہ سوشل میڈیا اور چند اخبارات میں چھپی ایک خبر کا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اخبارات کی وجہ سے کرونا پھیلنے کا خدشہ ہے اور بہت سے عام قارئین نے بھی اس وجہ سے اخبار کی سبسکرپشن بند کردی ہے کیونکہ انھیں خوف ہے کہ کرونا ان کے گھر تک نہ پہنچ جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے اس کے بعد ماہرین کی آرا ہر مشتمل ایک اشتہار بھی چینلز پر چلانا شروع کیا ہے کہ اخبارات سے کرونا وائرس پھیلنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔
رفیق کے مطابق انھیں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے سرکاری محکموں کو اخبارات کے پرانے بلز جمع کروانے ہیں اور کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ وصولیاں بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ 'اخبار فروش کو اخبار کی فروخت سے کمیشن ملتا ہے اور مہینے کے حساب سے جب لوگوں اور دفاتر کی طرف سے بل جمع ہو جاتے ہیں تو ان میں سے کمیشن دیا جاتا ہے۔
اخبار فروش احسان اللہ جو 1988 سے اسی پیشے سے وابستہ ہیں، انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 20 مارچ سے پہلے وہ دن میں400 سے زائد اخبار فروخت کیا کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد تقریبا 90 تک گر گئی ہے۔
انھوں نے بتایا 'عام دنوں میں مہینے کے تقریبا 30 ہزار روپے تک کماتا ہوں لیکن مارچ می ں یہ کمائی 12 ہزار روپے کم ہو چکی ہے۔ لاک ڈاؤن چونکہ مارچ کے آخر ہفتوں میں شروع ہوا تھا تو ابھی اپریل میں مزید نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے اپریل میں اخبارات کی سبسکرپشن بند کردی ہے۔ اب اگر لوگ اخبار نہیں خریدیں گے توظاہری بات ہے ہمارے گھروں کا چولہا نہیں جلے گا۔ہمارا تو کوئی اور روزگار نہیں ہے۔'
اقبال خٹک صحافیوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائرکیٹر ہیں اور صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے پاکستان میں نمائندہ ہیں۔
ان کے خیال میں اخبارات کی سرکولیشن میں کمی سے پرنٹ میڈیا سے وابستہ مالکان سمیت صحافیوں کے لیے بھی خطرہ ہو سکتا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد شاید یہ خطرہ کم ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک تو کرونا کی وجہ سے لوگ اخبارات نہیں خریدتے پھر پاکستان میں زیادہ تر میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، ان کے ریونیو کا دارومدار حکومتی اشتہارات پر ہے۔ اب اگر کرونا کی وجہ سے فروخت بھی نہ ہو اور حکومت کے اشتہارات بھی نہ ہوں تو ادارے چلانا مشکل ہو جائے گا جس سے صحافیوں کے نکالے جانے اور ادارے بند ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان میں اخبارات عالمی میڈیا اداروں کی طرح سبسکپرشن ماڈل یعنی آنلاین قارئین کو اخبار مہیا کرنا اور ان سے پیسے لینا، یہ کیوں شروع نہیں کرتا؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پرنٹ میڈیا کے اداروں کو ضرور اس پر سوچنا ہوگا کیونکہ ٹیکنالوجی ترقی کرے گی تو اس کے ساتھ چلنا پڑتا ہے اور جو پیچھے رہ جاتا ہے اس کے لیے کاروبار چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔
ختک کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے اخبار خریدنے والوں میں جو کمی آئی ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ جو نوجوان طبقہ آن لائن اخبار پڑھنے کی طرف شفٹ ہو چکا ہے اسے واپس پرنٹ پر لانا مشکل ہو۔ لیکن جو بڑی عمر کے لوگ ہیں وہ یقیناً واپس آ جائیں گے۔