آسٹریلیا میں پیر کو شائع ہونے والے تمام بڑے اخبارات اور جریدوں نے پریس پر مجوزہ پابندی لگانے کے حکومتی اقدام کے خلاف احتجاجاً اپنے سر ورق خالی چھوڑ دیے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اخبارات کی جانب سے اس وسیع پیمانے پر ردعمل ظاہر کرنے کا مقصد پریس کی آزادی پر قدغن لگانے والی قانون سازی کے خلاف احتجاج ہے جو عام طور پر سخت گیر میڈیا انڈسٹری کے اتحاد کی ایک نایاب مثال ہے۔
آسٹریلیا میں آزادانہ صحافت کے لیے کوئی آئینی تحفظات نہیں ہیں۔ اگرچہ حکومت نے 2018 میں جاسوسی کے انسداد کے لیے قانون سازی کے دوران اس حوالے سے ایک شق کا اضافہ کیا تھا تاہم میڈیا گروپس کا کہنا ہے کہ ملک میں پریس کی آزادی اب بھی محدود ہے۔
سوموار کو اخبارات نے ایسے صفحات شائع کیے جن میں زیادہ تر الفاظ کو مٹا کر یہ تاثر دیا گیا کہ اس کاپی کو سینسر کیا گیا ہے جیسے خفیہ سرکاری دستاویز میں ہوتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے احتجاج کا مقصد حکومت پر عوامی دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ حساس معلومات تک رسائی کو محدود رکھنے والے قوانین سے صحافیوں کو مستثنیٰ قرار دیں، معلومات کے نظام کو آزاد کریں اور صحافیوں پر ہتک عزت کے مقدمات کا از سر نو جائزہ لیں۔
’میڈیا انٹرٹینمنٹ اینڈ آرٹس الائنس‘ (ایم ای اے اے) نے ایک بیان میں کہا کہ ’پارلیمنٹ طویل عرصے سے قومی سلامتی کی آڑ میں ایسے قوانین منظور کر رہی ہے جس سے عوام کو معلومات کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلیا کے وزیر مواصلات پال فلیچر نے پیر کو فوری طور پر اس حوالے سے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر عوام بھی آزادیِ صحافت کے حق کا دفاع کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا میں پیر کی صبح سے ہی ’رائٹ ٹو نو‘ (جاننے کا حق) اور ’پریس فریڈم‘ ٹاپ ٹرینڈز ہیں۔
نیوز کارپوریشن آسٹریلیا کے ایگزیکٹو چیئرمین مائیکل ملر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’جب بھی حکومت صحافیوں پر نئی پابندیاں عائد کرتی ہے تو آسٹریلیا کے شہریوں کو پوچھنا چاہیے کہ وہ مجھ سے کیا چھپانے کی کوشش کر رہی ہے؟ میں نے آسٹریلیا میں بڑھتی ہوئی سرکاری رازداری کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔‘
Every time a government imposes new restrictions on what journalists can report, Australians should ask: 'What are they trying to hide from me?' - Why I've taken a stand against increasing government secrecy in Australia https://t.co/BQek4KvKyB #righttoknow pic.twitter.com/cpXJEvz7pj
— Michael Miller (@michaelmillerau) October 20, 2019
یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر بہروز بوچانی نے آزادی صحافت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا: ’آزادی اظہار کے لیے آسٹریلین میڈیا کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ملک کے کچھ سیاست دان جمہوریت کے دشمن ہیں اور اگر نظام خود اس طرح کے چھوٹے آمر پیدا کرے گا تو وہ اس سسٹم کے لیے ہی مسائل کا باعث بنیں گے۔ تارکین وطن کی جلاوطنی میں بھی اسی آمریت نے کردار ادا کیا ہے۔‘
Stand up with Australian media for freedom of speech. Some Oz politicians are enemies of democracy & the system itself has a problem if it creates this kind of small dictator. This same dictatorship has been played out in the secrecy about exile of refugees.#righttoknow pic.twitter.com/iB14DpSH0x
— Behrouz Boochani (@BehrouzBoochani) October 21, 2019
سینیٹر پینی وونگ نے ٹویٹ میں کہا: ’آج کے اخباری صفحات کافی درست نظر آرہے ہیں۔ (وزیر اعظم) سکاٹ ماریسن کے سینیٹ میں قائد متھائس کورمن نے الیگزینڈر ڈاؤنر سے متعلق امریکی ڈی او جے کی تحقیقات میں آسٹریلیا کی شمولیت کے بارے میں عہدیداروں کے آسان سوالات کا جواب دینے سے بھی انکار کردیا۔‘
Today's front pages are looking pretty accurate. Scott Morrison's Senate Leader @MathiasCormann refused to let officials answer simple questions about Australia's involvement in the US DOJ investigation involving Alexander Downer. #righttoknow #estimates pic.twitter.com/bgAv6NBWCR
— Senator Penny Wong (@SenatorWong) October 21, 2019
’دی ایج‘ اخبار کے لیے کام کرنے والی صحافی سارہ ڈینکرٹ نے اپنے نیوز روم کی تصویر کے ساتھ ٹویٹ میں لکھا: ’ہمیں کچھ وقت لگا لیکن اب ہم یہاں ہیں۔ ایج اور میلبورن اے ایف آر کے نیوز روم آزادی صحافت اور رائٹ ٹو نو کے حق میں ہیں۔‘
Took us a while but here we are... Age and Melbourne AFR newsrooms support #PressFreedom and #YourRightToKnow pic.twitter.com/VDErJKzgBE
— Sarah Danckert (@sdanck) October 21, 2019