کرونا (کورونا) کے خلاف لڑائی دنیا بھر میں قیادت کی لڑائی میں بدل گئی ہے۔ یہ لڑائی ہے وقت پر درست فیصلے کرنے اور پاؤں گھسیٹتے ہوئے ردعمل میں فیصلے کرنے کے درمیان۔
ہمارے وزیر اعظم ہاؤس سے وائٹ ہاؤس تک، اور ووہان سے وائٹ ہال تک یہ لڑائی اعصاب کی لڑائی بھی ہے اور فہم و فراست اور اضطرار کے مابین جنگ و جدل کی بھی۔ بدقسمتی سے بنی گالہ کے باسی جو اسلام آباد کی اونچی پہاڑی پر براجمان ہیں، باتیں تو ووہان کی کرتے ہیں پر چلتے ہیں وائٹ ہال اور وائٹ ہاؤس کی ناکام حکمت عملی پر اور یہی آج کے پاکستان کا المیہ ہے۔
ان صفحات میں ہم آپ کو کرونا کے پھیلاؤ سے متعلق مسلسل آگاہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم آپ کو بتاتے رہے ہیں کہ کس طرح دوسرے ملکوں سے ہمارے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں آیا ہوا وائرس اب مقامی طور پر پھیل رہا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کرونا کی وجہ سے سرکاری طور پر ہلاکتوں میں ایک سو سے زائد افراد کا اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں کرونا سے متاثرہو کر بیمار ہونے والوں کی تعداد دگنی سے زائد ہوچکی ہے۔ جمعہ کی سہ پہر تک متاثرین کی تعداد ساڑھے 11 ہزارسے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد 241 پہنچ چکی تھی۔
اس پورے پس منظر کے باوجود عمران خان کی سربراہی میں وفاقی حکومت کچھوے کی رفتار سے فیصلے کر رہی ہے۔ ان فیصلوں میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی طرف ہیں۔ پچھلے ہفتے مفتی منیب الرحمٰن سمیت کئی مذہبی علما نے یکطرفہ طور پر مسجدوں میں باجماعت نمازیں اور تراویح پڑھنے کا اعلان کر دیا تھا۔ سندھ حکومت نے اس وقت بھی علما کو سمجھا بجھا کر، جمعے کے روز لوگوں کو گھر میں نماز پڑھنے پر قائل کیا لیکن پچھلے سنیچر کے روز ایوانِ صدر میں صدر عارف علوی کی قیادت میں جو 20 نکاتی اعلامیہ سامنے آیا اس نے ایک بار پھر پوری قوم کو چکرا کے رکھ دیا۔
علما کو خوش کرنے کے چکر میں ایسا ناقابل عمل نقشِ راہ دیا گیا جس سے لوگوں کے الجھاؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ سونے پے سہاگہ سمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر متعدد شعبہ ہائے زندگی کو کھولنے کی وجہ سے ایک بار پھر لاک ڈاؤن بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی طور پر کرونا وائرس کا ہوشربا پھیلاؤ سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں تاجر حضرات نے بھی بے ہنگم لاک ڈاؤن کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔
اس صورت حال کو مزید خراب کرنے میں وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ حکومت کی طرف سوکنوں والا رویہ ہے۔ وفاقی حکومت اور اس کے کارندے مسلسل سندھ حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کراچی میں تاجروں نے اپنے طور پر دکانیں کھولنے اور گرفتاریاں پیش کرنے کی کوشش کی تو صوبے کے انصافی گورنر نے انہیں قانون کی پابندی کرنے کی بجائے سول نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ کراچی شہر سے ایسی کئی خبریں سامنے آئی ہیں جن میں کرونا کے خلاف قومی سطح پر طے شدہ پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والے کارخانوں اور اداروں کے مالکان کی حمایت صوبائی گورنر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس پورے عمل میں وفاقی حکومت کے کارندوں کی مضحکہ خیز حرکتیں بھی جاری ہیں۔ ایک طرف کراچی میں دکانداروں کو دکانیں کھولنے کے لیے اُکسایا جا رہا تھا تو دوسری طرف پشاور میں دکانداروں سے دکانیں بند کروانے کے لیے پولیس ہوائی فائرنگ کر رہی تھی۔ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ ہو رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی حکومت کی طرف سے رمضان کے مہینے میں مبہم اور ناقابل عمل پالیسی کے بعد ملک بھر کے ڈاکٹر اور میڈیکل شعبے سے منسلک سینیئر پیشہ ور حضرات سامنے آئے اور اس خطرناک پالیسی کے خطرات سے آگاہ کیا۔ کراچی میں ان حضرات نے بدھ کے روز پریس کانفرنس کی اور کھل کر بتایا کہ موجودہ صورت حال میں مسجدوں میں با جماعت نماز اور تراویح منعقد کرنے کا نتیجہ انتہائی خطرناک نکلے گا۔ ان لوگوں نے خبردار کیا کہ جس تیزی سے یہ مرض پھیل رہا ہے، خود میڈیکل شعبے کے لوگوں کو بیمار کر رہا ہے (اب تک میڈیکل شعبے سے تعلق رکھنے والے 253 افراد کرونا کے مریض بن چکے ہیں) اور جو سہولیات عوام کے لیے موجود ہیں ان میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی قسم کی بے احتیاطی کی عیاشی کی جائے۔
ان ڈاکٹروں اور ماہرین نے بتایا کہ اگر علما حضرات اور عوام کے لیے مسجدیں اسی طرح کھلی رکھی گئیں جیسی کرونا سے پہلے تھیں تونہ صرف انہیں لوگوں کا علاج سڑکوں پر کرنا پڑے گا بلکہ شاید یہ فیصلہ بھی کرنا پڑے گا کہ کس عمر کے لوگوں کا علاج کیا جائے اور کس عمر کے لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر حکومت سے اپیل کی کہ انہیں ایسی صورت حال سے بچایا جائے۔
اس کے جواب میں وفاقی حکومت نے اس پر ہمدردانہ غور کرنے کی بجائے ان حضرات کے خلاف شہباز گِل کی خدمات لیں جنہوں نے ڈاکٹروں پر الزام عائد کیا کہ وہ سندھ حکومت کے اشارے پر سیاست کر رہے ہیں۔ اگلے روز جب لاہور میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے پریس کانفرنس میں وہی باتیں دہرائیں اور خیبر پختونخوا کے ڈاکٹروں نے بھی وہ موقف اپنایا تو سر چکرائی ہوئی سرکار کے کچھ سمجھ نہ آیا کہ اب کیا کیا جائے۔
شہباز گِل اینڈ کمپنی ملک کے عوام کو ابھی تک سمجھانے سے قاصر ہے کہ کس طرح مراد علی شاہ ملک بھر کے ڈاکٹروں کے بھی مقبول ٹریڈ یونین رہنما بن گئے ہیں۔
تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مراد علی شاہ کی سندھ حکومت نے ایک بار پھر فیصلہ کن انداز میں نتائج کی پروا کیے بغیر نہ صرف جمعے کے روز دن کے وقت مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا بلکہ وفاقی سرکار کی ڈھلمل پن کے برعکس واضح فیصلہ کیا ہے کہ سندھ میں نماز تراویح میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور صرف تین سے پانچ افراد مسجد کے اندر آ سکیں گے۔
غیر معمولی حالات میں فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں، اس کا عملی نمونہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے پیش کیا ہے جبکہ وفاقی سرکار صرف رد عمل کے بیانات تک محدود ہے۔ وفاقی حکومت کے برعکس فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجرجنرل بابر افتخار نے جمعے کی سہ پہر اپنی پریس کانفرنس میں واضح طور پر رمضان کے مہینے میں عبادت کو گھروں تک محدود کرنے کی عقل مندانہ بات کی۔
اس پوری مضحکہ خیز صورت حال کی جڑیں اس حقیقت میں پنہاں ہیں کہ عمران سرکار کا خیال ہے کہ ان کی کامیابی ان کے بیانیے کی فتح میں پوشیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری توجہ معیشت کو ٹھیک کرنے، طرز حکمرانی کو بہتر کرنے اور اب کرونا جیسے موتمار مرض کو پھیلنے سے روکنے کی بجائے مخالفین کو زیر کرنے اور میڈیا کو فتح کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ساری توجہ میڈیا سٹریٹجی سیشنز پر مرکوز ہے۔
جسمانی دوری کے زمانے میں ایک طرف شہباز شریف کو بلاوے پر بلاوے آ رہے ہیں دوسری طرف آئینی اداروں کو عضو معطل رکھا گیا ہے۔ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی، جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے، کے مسلسل اجلاس ہو رہے ہیں جبکہ آئین کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا جا رہا۔ نہ صرف یہ بلکہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کو بھی تالا لگایا جا چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک کرونا کی وبا کا مقابلہ کر رہا ہے، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور بجٹ سر پر کھڑا ہے۔
دنیا بھر کے پارلیمان کے اجلاس ختم نہیں ہوئے۔ برطانیہ میں بھی آج کل کچھ ارکان پارلیمان جسمانی طور موجود ہوتے ہیں اور کچھ آن لائن اپنی نمائندگی کرتے ہیں۔ ووٹنگ بھی آن لائن ہو سکتی ہے اور کسی ایپ کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔ پارلیمان میں جماعتوں کی عددی اکثریت کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ ارکان متناسب نمائندگی کو سامنے رکھتے ہوئے جسمانی طور پر اجلاس میں اور کچھ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ جہاں مرضی ہو وہاں راہ نکل آتی ہے۔ لیکن ابھی تک اس سلسلے میں خاموشی ہے۔
ملک میں ویسے ہی میڈیا کا برا حال ہے۔ تنقیدی آوازوں کو ایک ایک کرکے بند کیا گیا ہے۔ میڈیا مالکان پر بے انتہا دباؤ ڈال کر انہیں سرکاری موقف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن 12 مارچ سے ایک مشکوک مقدمے میں، جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے، نیب کی حراست میں ہیں۔ جمعرات کی سہ پہر اکثر چینلوں کو تین گھنٹے کی چندہ مہم میں شامل کیا گیا جہاں ان چینلوں کے سرکردہ اینکروں کو بٹھایا گیا جنہوں نے کرونا مسئلے پر سنجیدہ گفتگو کرنے کی بجائے سیلیبرٹی گپ شپ میں تین گھنٹے ضائع کیے۔
رہی سہی کسر ہر حکومت کے دلدادہ مولانا طارق جمیل نے پوری کر دی، جنہوں نے نہ صرف یہ نوید سنائی کہ کرونا کی وبا ملک میں بے حیائی اور عریانی کی وجہ سے ہے بلکہ اس میڈیا کو جھوٹا بھی قرار دیا جس پر بیٹھ کر وہ یہ فرما رہے تھے۔
اگر اب بھی کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ عنقریب اس وقت پوری ہو جائے گی جب پیمرا قوانین میں حکومت کی ایما پر نئی ترمیم کر دی جائے گی۔
مجوزہ ترمیم کے بعد پیمرا چیئرمین کو یہ نادر شاہی اختیار مل جائے گا کہ وہ اکیلے جب چاہیں کسی بھی چینل پر جرمانہ عائد کر دیں گے اور اسے بند بھی کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو جو اکا دکا تنقیدی آوازیں آپ کو آج کل سننے کو مل جاتی ہیں وہ بھی نہیں ملیں گی۔
یہ بات یقینی ہے کہ اگر میڈیا مالکان نے اسے عدالتوں میں اور حزب اختلاف نے اسے پارلیمان میں (جو آج کل بند پڑی ہوئی ہے) چیلنج نہ کیا تو پاکستان کے باقی چینلوں اور حکومتی غلام پی ٹی وی میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ پی ٹی وی سرکاری پروپیگنڈا اشتہار اور لائسنس فیس کے نام پر جگا ٹیکس لے کر کرتا ہے جبکہ پرائیویٹ چینل لائسنس فیس نہیں لیتے۔ حالیہ دنوں میں پی ٹی وی لائسنس فیس میں بھی ہوشربا اضافہ (187 فیصد) کیا گیا ہے اور یہ فیس 35 روپے سے بڑھا کر ایک سو روپے کر دی گئی ہے۔
جو بات عمران خان، ماضی کے حکمرانوں کی طرح سمجھ نہیں پائے وہ یہ ہے کہ میڈیا اور ملک کے دانشور سرکار کے سامنے ماتھا ٹیک بھی دیں تو اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی اس سے حکومتی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔ 16 دسمبر سنہ 71 میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تھا، اس وقت تمام میڈیا فوجی حکومت کی مدح سرائی میں مصروف تھا لیکن اس سے بد ترین شکست فتح میں بدل نہیں گئی تھی۔
ابھی تو کرونا کی وجہ سے قوم بےحال ہے، مقتدر حلقے کسی بھونچال کے متحمل نہیں ہو سکتے، حزب اختلاف کسی اندرونِ خانہ تبدیلی کے ذریعے دو ڈھائی سال کے لیے منفی دو فیصد شرح نمو کی سرکار کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اگر صورت حال مزید خراب ہوئی، جس کے خطرات بالکل موجود ہیں، تو عمران خان اور ان کی مختصر کچن کابینہ ڈھونڈے بھی نظر نہیں آئے گی۔