کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس سے ہم نے لڑنا بھی ہے اور مرنا بھی ہے۔ ابھی تک تو لاک ڈاؤن کے لفظ کی کوئی حرمت باقی تھی لیکن رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی اس اصطلاح کا مکمل بھرکس نکال دیا گیا ہے۔
ہر صوبے اور اب اسلام آباد سے ڈاکٹر اور صحت کے ماہرین ہاتھ جوڑ کر یہ استدعا کر رہے ہیں کہ خدارا خود پر اور ہم پر رحم کیجیے۔ اس بیماری اور اس کے پیچھے کھڑی وبا کو مذاق مت سمجھیے مگر ہر درخواست بےاثر ہے۔
ہر جگہ پر اب ایک جم غفیر ہے جو سینہ تان کر (اور کبھی کبھار ماسک لگا کر) گھوم رہا ہے۔ اموات کی شرح اسی خطرناک رخ کی جانب جا رہی ہے جس کی طرف ہم جیسے بدخبرے شروع دن سے اشارہ کر رہے تھے۔ محدود ترین ٹیسٹ کرنے کے باوجود ہماری اوسط انفیکشن کی شرح پریشان کن حد تک اٹلی سے مماثلت رکھتی ہے لیکن عوام ہیں کہ سنبھلنے کی طرف مائل ہی نہیں۔
ڈاکٹرز کی طرف سے جاری کردہ انتباہ کا سب سے خطرناک پہلو صحت کے ان محافظوں کی اپنی اموات اور بڑھتے ہوئی انفیکشنز کے امکانات ہیں۔ خیبر پختونخوا اور اس سے پہلے گلگت میں ڈاکٹرز کی شہادت واضح انداز میں بتا رہی ہے کہ موت اس وائرس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اس کو جہاں بھی موقع ملے گا یہ جان کس لے گا اور اگر خدانخواستہ ہمارے ڈاکٹرز، نرسز اور ان کا مددگار سٹاف اس کی بھینٹ چڑھنا شروع ہو گیا تو ہسپتالوں میں مریضوں کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
پھر وہ ہسپتال جہاں پر دوسرے امراض کا علاج ہو رہا ہے یا جہاں دوسرے مریض شدید طبی امداد کی طلب میں ہیں، کرونا کی نذر ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب حقیقی امکانات کسی تبدیلی کا باعث نہیں بنے۔ کوئی اب لاک ڈاؤن کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔
پولیس جس کے اپنے اراکین اس وائرس کی زد میں آ چکے ہیں عوام کو روکنے سے قاصر ہے۔ وہ بعض بازاروں میں دکانداروں کی دکانیں بند کروا سکتی ہے مگر زندگی کے اس بہاؤ کو نہیں روک سکتی جو آپ کو ہر سڑک، عبادت گاہ اور خرید و فروخت کے میدان میں نظر آ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک بدترین صحت اور معاشرتی بحران کی طرف بےلگام گھوڑے کی طرح بھاگے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بھیڑ میں ہر کوئی ایک دوسرے کو یہ سمجھا رہا ہے کہ ادھر موت ہے لیکن پھر خود ہی اس سمت لڑھکتا ہوا بھی جا رہا ہے۔
اس پاگل پن کی ایک اور سب سے اہم وجہ معاشی ہے۔ کرونا نے اس ملک میں خون کی ہولی برپا کر دی ہے۔ ایک سروے کے مطابق 84 فیصد پاکستانیوں کی آمدن کرونا سے متاثر ہوئی ہے جبکہ 68 فیصد کے قریب عام طبقے کے شہری نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ معاشی تباہ کاری دنیا میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ وہ افراد اس کے علاوہ ہیں جو کسی معاشی شمار میں آتے ہی نہیں لیکن لاکھوں کی تعداد میں پالیسی سازوں کی نظروں سے اوجھل اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار کر کام چلا رہے تھے اب مکمل طور پر بے روزگار ہیں۔ ان کے پاس جب تک حکومتی 12000روپے پہنچیں گے تب تک ان کی بھوک اور بےکسی ان کو مار دے گی اور پھر 12000 روپے ملیں گے کب تک۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟
چونکہ ہمارے یہاں حقائق پر پردہ ڈالنا یا ’اگر سب اچھا نہیں تو اتنا برا بھی نہیں‘ والا منتر پڑھنا اب باقاعدہ سرکاری پالیسی بن گیا ہے، لہذا ہمارے پاس کرونا سے پھیلنے والی معاشی تباہی کی مکمل کہانی ابھی بھی موجود نہیں۔ حکومت معاشی مسائل کا ذکر تو بہت کرتی ہے مگر حقائق بیان کرنے سے کتراتی ہے کیوں کہ پھر اس پر یہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی کہ وہ ان مسائل کا کوئی حل نکالے۔ اس کے لیے ظاہر ہے نہ اس کے پاس کوئی پلان ہے اور نہ سوچ۔
ہم اپنے برابر میں بنگلہ دیش میں ہونے والے تجزیوں سے جان سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں کس قسم کے حالات بن چکے ہوں گے۔ اس پڑوسی ملک میں ہر گھر کی آمدن 75 فیصد کم ہو گئی ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے 79 فیصد افراد تنگ دست ہو گئے ہیں۔ ڈرائیورز اور مزدوروں کی آمدن 80 فیصد سے نیچے گر گئی ہے۔ دس میں سے چارگھروں میں صرف تین دن کا کھانا موجود ہے اور یہ حال ہے سفید پوش طبقے کا۔ غریب تو برباد ہو گیا ہے۔
جب ایسے حالات بن جائیں تو عوام کو سمجھانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر اس نرمی کو لاک ڈاؤن کی مکمل تباہی میں تبدیل ہونے سے بچانے کا بندوبست بھی حکومت کو ہی کرنا تھا جس میں فی الحال آپ کو ناکامی کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نظر نہیں آتا۔ نام نہاد سمارٹ لاک ڈاؤن ایک بےوقوفانہ طفل تسلی ہے جو ٹھنڈے کمروں میں کمپیوٹر سے دی گئی بریفنگ میں تو اچھی لگتی ہے لیکن اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو لاک ڈاؤن کی درگت بنانے پر سب سے زیادہ حکومت نے خود مائل کیا۔ پہلے دن سے یہ پیغام عام کیا گیا کہ حکومت اس وبا کے بارے میں کچھ خاص موثر کردار ادا نہیں کر پائی کیوں کہ ہم سے کہیں باوسائل اقوام کی بھی سٹی گم ہو چکی ہے۔ یقیناً پھر عوام میں یہ احساس پیدا ہونا ہی تھا کہ انہوں نے جیسے تیسے اپنا بندوبست خود ہی کرنا ہے اور اب وہ یہ بندوبست خود کر رہے ہیں، اگرچہ اس کا نتیجہ بدترین بداحتیاطی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
مشکل اور غیریقینی حالات میں قیادت عوام کو نفسیاتی سہارا دیتی ہے مگر جب میرِ کاررواں گداگروں کا کاسہ اٹھا لیں تو پھر خلقت کیا خاک امید باندھے گی۔
اس طرح شروع سے نیم سرکاری طور پر خواہ مخواہ کی افواہیں بھی پھیلائی گئیں۔ مثلاً پہلے عوامی معلومات والے پیغامات میں کرونا کو جان لیوا بیماری قرار نہیں دیا گیا، وجہ؟ کہیں افراتفری نہ پھیل جائے۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ گرم موسم میں یہ وائرس فنا ہو جائے گا، باوجود اس کے کہ اس کی کوئی ثابت شدہ سائنسی بنیاد نہیں تھی اور اب اس وبا کو بےحیائی اور خواتین کے مختصر لباس کے ساتھ جوڑ کر عقل اور منطق کو آخری رسومات ادا کیے بغیر دفن کر دیا گیا ہے۔
جس نظام میں اس قسم کی دو نمبری کی ترویج اور فروغ کی اتنی وافر گنجائش موجود ہو وہاں سے عوام کو ایک سیدھا اور مستقل پیغام کیسے مل سکتا ہے؟ ایسے نظام میں رہنے والا پھر لاک ڈاؤن کو مذاق اور وبا کو سازش کیوں نہ سمجھے اور اس کی دھجیاں اڑانے پر مصر کیوں نہ ہو۔ ان حالات میں حکومت اگر بے بس و مجبور نظر آتی ہے تو عوام کے معاشی مسائل کے علاوہ اس کی اپنی حماقتیں قصور وار ہیں۔
اس وقت پاکستان ایک کاغذی لاک ڈاؤن کی حالت میں ہے اور کرونا اپنی پوری قوت سے آفت مچا رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے پالیسی کے تضادات کو حل نہیں کیا تو آنے والے دن قیامت سے کم نہ ہوں گے۔ لیکن پھر یہ تضادات کون حل کرے گا؟ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے سے زیادہ تو شہباز شریف کو پکڑنا اہم ہے۔