پاکستان میں ہر فیصلہ اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ کیوں ہمارا ہر مسئلہ اتنا پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی سمجھ میں نہیں آتا؟ اگر ریاست کوئی فیصلہ کرلے تو عوام اس کے آگے سینہ تان کے کھڑی کیوں ہو جاتے ہیں؟
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ دین اسلام میں تو جہاد بھی آپ پر ریاست ہی فرض کر سکتی ہے۔ ریاست سے مراد ہمارے امیر کی ہے اور ریاست کی اطاعت کرنا بطور شہری ہم پر اس وقت تک فرض ہے جب تک کہ ریاست دین کے اصولوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کر لے۔ اگر ریاست کوئی قانون بنا رہی ہے اور آپ چونکہ اس ریاست کے شہری ہیں لہذا آپ ان قوانین کے پابند ہیں۔
اب ایک طرف لاک ڈاؤن ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ کہیں مجمع اکٹھا نہ ہو وہاں دوسری طرف مفتی منیب الرحمٰن نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ رمضان المبارک میں نماز جمعہ اور تراویح مساجد میں ادا کی جائیں گی۔
اب جب ایسا ہوا تو پھر ریاست کو باقاعدہ طور پر اس حوالے سے حکمت عملی بنانی تھی۔ چنانچہ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور مشکل فیصلہ کیا گیا جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے علمائے کرام کے ساتھ مشاورتی عمل کے بعد رمضان المبارک میں مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز جمعہ اور تراویح پڑھنے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کا اعلان 20 نکاتی متفقہ اعلامیہ جاری کرکے کیا گیا۔
اب بظاہر تو سن کر بڑا اچھا لگ رہا ہے کہ حکومت اور علمائے کرام کے درمیان اس معاملے پر ہم آہنگی پائی جا رہی ہے لیکن دوسری طرف اگر سعودی عرب کو دیکھیں اور وہاں کے فتوے سنیں تو انہوں نے تو اب بھی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی۔ تو جب وہ ایسا نہیں کر رہے تو اس کے پیچھے کیا سوچ ہے؟ اور پاکستان میں اگر اس عمل کی اجازت دے دی گئی ہے تو اس کے پیچھے کیا سوچ ہے؟
مذہب کے ساتھ محبت اور انسیت ہر شخص کو ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن پاکستان میں ہم غیر ذمہ دارانہ طور پر کچھ جذباتی بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس رب العزت کے سامنے سر بسجود ہونے کے لیے ہم مساجد میں اکٹھے ہونے کی خواہش کر رہے ہیں اسی رب تعالی کی مخلوق کو ہم سے اس وقت خطرہ لاحق ہے۔
حکومت اور علمائے کرام کے درمیان مشاورت تو ہوگئی، فیصلہ بھی ہوگیا، اعلامیہ بھی جاری ہوگیا جس میں مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین نہ لگانے، فرش کو کلورین کے محلول سے صاف کرنے، وضو گھر پر کرنے، نماز سے پہلےاور اختتام پر مجمع نہ لگانے، بزرگ، بچے، بیمار افراد جن کو نزلہ زکام کھانسی بخار ہو ان کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی اور ان جیسے دیگر احکامات شامل ہیں۔
لیکن وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے ٹی وی پر بیان دیا کہ اگر مساجد میں نماز جمعہ اور تراویح میں ان 20 نکات پر سختی سے عمل نہ کیا گیا تو جو لوگ بھی اس مرض میں مبتلا ہوئےاور جن کا بھی انتقال ہوا اس کی تمام تر ذمہ داری علمائے کرام پر ہوگی۔
ہمارے ہاں لوگوں کو ہر چیز میں کوئی نہ کوئی سازش کار فرما نظر آتی ہے۔ ریاست پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی لیکن اس کے باوجود ہمیں جامعہ الاظہر سے فتویٰ آنے کا انتظار رہتا ہے۔ جس سرزمین پر کلمہ حق بلند ہوتا ہو، نعرہ تکبیر لگایا جاتا ہو وہاں اسلام کو کوئی بھی خطرہ کیسے لاحق ہو سکتا ہے؟
انسانی جان بہت مقدم ہےاور حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بارش کے حالات میں بھی نماز گھر میں ادا کرنے کے احکامات دیئے گئے تھے۔ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک شخص جو کوڑھ کا مریض تھا بیعت کے لیے آیا تو نبی اکرمﷺ نے اس سے مصافحہ کیے بغیر فرمایا کہ میں آپ کی بیعت قبول کر چکا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ایک کھانسی سے یہ مرض بیسیوں لوگوں میں پھیل سکتا ہے تو اندازہ لگائیں اگر مساجد میں سو سو کا اجتماع ہوگا تو ملک کی کتنی آبادی متاثر ہوگی اور ان لوگوں کے لیے اس غریب ملک میں سہولیات کہاں سے آئیں گی جہاں پہلے ہی 22 کروڑ کی آبادی کے لیے 1300 سے 2000 وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ ان میں سے بھی کتنے خراب ہیں کوئی نہیں جانتا۔
ٹھیک ہے، ایک معاہدہ ہوگیا اور نہ ہی کوئی بھی یہ کہہ رہا ہے کہ اس میں کسی کی بھی کوئی بدنیتی شامل ہے لیکن اس ملک کے معاملات کو دیکھتے ہوئے لگتا ایسا ہے کہ یہ بیچ کا راستہ نکالا گیا ہے۔ حکومت اس وقت ٹکراؤ نہیں چاہتی تھی۔ علما نے حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی تو بجا دی تھی جب مفتی منیب الرحمٰن نے مفتیان اعظم کے ساتھ مل کر چند دن پہلے پریس کانفرنس میں مساجد کے بارے میں اعلان کیا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بیچ کے راستے میں ان 20 نکات پر عمل درآمد کتنا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے مساجد میں اجتماعات نہیں ہو رہے تھے۔ اسلام آباد کی لال مسجد میں بہت بڑا اجتماع ہوا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور وہ تو کلاشنکوف کے ساتھ ہوا۔ اب یہ ایک الگ معاملہ ہے اور حیران کن طور پر حکومت اور اداروں کو پریشان نہیں کرتا۔
بڑے شہروں میں ان نکات پر عمل درآمد کو کافی حد تک یقینی بنایا جانا آسان ہوگا کیونکہ وہاں پر وسائل موجود ہیں۔ چھوٹے شہروں کا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں خاتون ایس ایچ او پر عوام حملہ آور ہو جائیں اور ابھی تک اس حوالے سے کوئی کارروائی بھی نہ کی گئی ہو تو ایسے میں اس معاہدے پر عمل کروانا حکومت اور اداروں کے لیے یقیناً ایک مشکل کام ہوگا۔